کرونا لاک ڈاؤن: طلبہ کے مستقبل کا فیصلہ ان کی رضا مندی کے بغیر کیسے لیا جاسکتا ہے؟

کرونا لاک ڈاؤن: طلبہ کے مستقبل کا فیصلہ ان کی رضا مندی کے بغیر کیسے لیا جاسکتا ہے؟

ایک بار پھر یونیورسٹی انتظامیہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کورونا کے باعث یونیورسٹی بند کی جارہی ہے اور دو دن میں طلبہ ہاسٹل خالی کر کے گھروں کو روانہ ہو جائیں۔ اب یہ طلبہ کورونا سے بچنے کے لیے سب سے پہلے بس اڈوں پہ جائیں گے جہاں اس فیصلے کی وجہ سے سینکڑوں مزید لوگ موجود ہوں گے، بسیں کچھا کھچ بھری ہوں گی اور کورونا کو یقینا وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ یہ طلبا ملک کے کونے کونے سے آئے ہیں اور واپس اپنے گھروں میں جائیں گے جہاں تمام کاروباری مراکز کھلے ہوں گے اور یقینا نظریہ ضرورت کے تحت وہاں بھی یہ لوگ وقتا فوقتا تشریف لے جاتے رہیں گے لیکن کورونا نہیں پھیلے گا کیوں کہ تعلیمی ادارے اس کی پسندیدہ آماجگاہ ہیں اور اب چوںکہ طلبہ نے ہاسٹل بھی خالی کر دیے اس لیے وہ مزے سے خالی ہاسٹلوں میں رہے گا اور اس عنایت کی وجہ سے ملک بھر کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے گا۔

کورونا وائرس سے یہ مذاکرات ہمیشہ ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور جب بھی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اسے یہ پیشکش کرتی ہے تو کورونا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر ملک بھر سے اپنا نیٹ ورک مرحلہ وار ختم کرنا شروع کردیتا ہے۔ تعلیمی ادارے چونکہ دولت کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہیں اس لیے وہ ہر بار ہی ماہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نیا سمسٹر شروع ہونے پر یونیورسٹی مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے کورونا وائرس غصے میں آکر جوابی کارروائی کا اعلان کرتا ہے اور چھوٹے پیمانے کے حملے ملک بھر کے شہروں میں شروع ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں مرحلہ وار کیمپس کھلتا جاتا ہے اسی تناسب سے حملوں کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ بالآخر صرف ایک سے ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی انتظامیہ مذاکرات کے میز پہ آجاتی ہے اور جنگ بندی کا اعلان ہمیشہ ادارے بند کرنے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

جنگ اور جنگ بندی کی تمام تر نتائج طلبا کو بھگتنے پڑتے ہیں اور طلبہ کی ایک قلیل تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ جب وہ جنگ اور جنگ بندی کے مذاکرات میں شامل ہی نہیں نہ ہیں،ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ان کی رائے ہی نہیں لی گئی ہے تو اس کے نتائج وہ کیوں بھگتیں۔ اس سوچ کے تحت وہ سوشل میڈیا پہ فیصلے کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں مگر بے سود کیوں کہ اس کا حل بھی نظام کے پاس موجود ہے۔ ایک معقول تعداد ایسے طلبہ کی ہے جنہیں لگتا ہے کہ اس معائدے میں ان کا فائدہ ہے کیوں کہ وہ روز کلاس میں جانے اور چھ گھنٹے وہاں گزارنے کی تکلیف سے بچ جائیں گے۔ امتحانات بھی آن لائن ہیں جن میں وہ بغیر کسی تیاری کے اعلی مقام حاصل کر لیں گے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس طبقے کی تعداد میں تیزی اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ قوم جان چکی ہے کہ علم اور کتاب اس کے "بدترین دشمن" ہیں۔ نوکری کے لیے ڈگری چاہیے جو ہمیں اس دشمن سے ٹکر لیے بغیر حاصل ہو رہی ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ اس لیے اس طبقے کے طلبہ خود ہی اس قلیل تعداد کا منہ بند کروانے کے لیے کافی ہیں جو "بدترین دشمن" کے اشاروں پر ناچتے ہوئے انتظامیہ کے فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

طلبہ کی نمائندگی کے لیے پہلے ملک میں طلبہ یونینز ہوتی تھیں اب چوںکہ انتظامیہ اتنی سمجھدار اور ہمدرد ہے کہ طلبہ کو یونین کی ضرورت ہی نہیں تو اس پہ پابندی ہے۔ طلبہ تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان کا کام اپنی سوچ اور اپنے علاقے کے طلبہ کا تحفظ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سال میں دو تین موقعوں پہ فری سٹائل کشتی کے مقابلے کروا کے طلبہ کو انٹرٹینمنٹ بھی فراہم کر رہی ہیں جس کے بعد جیتنے والی تنظیم کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی بند ہونے کے مسئلے سے ان کا تعلق نہیں کیوں کہ کورونا ہاسٹل میں ان کے ممبران کی رفاقت میں رہنا پسند کرتا ہے اس لیے انہیں انتظامیہ کی طرف سے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

انتظامیہ کے فیصلوں کو خوشی سے تسلیم کروانے کے لیے پروفیسر حضرات اپنی خدمات بہ خوبی سرانجام دیتے ہیں۔ وہ طلبہ کو قائل کرتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں اور انتظامیہ کا ہر فیصلہ آپ کی دنیا اور آخرت کی فلاح کے لیے بہتر ہے۔ اگر کوئی "بدترین دشمن" کا ایجنٹ اختلاف کرے تو پروفیسر صاحب کے پاسDاور F گریڈ ہتھیار ہر وقت موجود رہتے ہیں جو دور تک مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمیشہ نشانے کو ہٹ کرتے ہیں۔ کئی مہربان پروفیسرز بھی ہیں جو طلبہ سے مذاکرات پہ یقین رکھتے ہیں اور معاہدہ کرتے ہیں کہ طلبہ انہیں آرام کا موقع دیں گے اور جواب میں وہ انہیں A گریڈ سے نوازیں گے۔ پروفیسر یہ سب اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ جنگ بندی کے معاہدے کا انہیں بھی فائدہ ہی ہے اور اب وہ گھر بیٹھ کر لاکھوں روپے تنخواہ حاصل کر سکتے ہیں جس کے لیے پہلے انہیں ہزاروں میٹرز کا سفر طے کر کے کلاس میں جانا پڑتا تھا۔

ان فیصلوں میں انتظامیہ کی مدد کرنے میں حکومتی عہدیدار بھی پیش پیش بھی ہیں جنہیں اپنی قوم کے بچوں اور نوجوانوں سے بہت محبت ہے اور وہ انہیں "بدترین دشمن " کے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور اب تو انھوں نے "یکساں قومی نصاب" کی صورت میں ففتھ جنریشن نصاب بھی متعارف کروا دیا ہے۔ یہ سب ہتھیار موجود ہیں لیکن اگر تعلیمی ادارے کھولے ہی نہ جائیں تو جنگ کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی ۔حکومت امن پسند ہے، جنگ کے مقابلے میں ہمیشہ امن کو ترجیح دیتی ہے۔ سو قوم کے بچے اس کا شکار ہونے سے بچے رہیں گے۔ قربانی کا جذبہ اتنا ہے کہ اپنے بچوں کو گھر میں اتالیق مقرر کر کے پڑھائیں گے تاکہ ان کے بچے بھی انھی کی طرح قوم کے وسیع تر مفاد کا تحفظ کر سکیں۔

بہرحال یونیورسٹی نے آخری فیصلہ لے لیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ تمام طلبہ قوم کے وسیع تر مفاد کے تحت اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے اور کورونا کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور "بدترین دشمن" کے ایجنٹوں کا کسی بھی صورت ساتھ نہیں دیں گے کیوں کہ قوم کا، ملک کا، یونیورسٹی انتظامیہ کا اور اچھے طلبا کا فائدہ اسی میں ہے۔

مصنف پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔