صدر علوی جلد الیکشن کا مطالبہ کر کے فوج کو ناراض نہیں کرنا چاہتے

پی ٹی آئی کے مفادات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ صدر علوی اپنے ذاتی مفادات کو بھی تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ گذشتہ مہینے انہوں نے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ صدر عارف علوی بھی طاقت کے ایوانوں میں موجود باقی لوگوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔

صدر علوی جلد الیکشن کا مطالبہ کر کے فوج کو ناراض نہیں کرنا چاہتے

صدر پاکستان عارف علوی کا چیف الیکشن کمشنر کے نام خط جس میں انہوں نے ملک میں 6 نومبر کو انتخابات کروانے کا مشورہ دیا، ان کی سیاسی چال سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور اس خط نے ان کی اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے لے کر ان کی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سمیت سبھی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ پیچ دار لفاظی میں تحریر کردہ یہ خط جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے اور اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی لینے کا کہا ہے، معاملات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی جلد انتخابات کروانے والی خواہش یقینی طور پر پوری نہیں ہو سکے گی۔

1973 کے آئین کے مطابق صدر پاکستان اسمبلی کو تحلیل کرنے کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ تاہم صدر عارف علوی کا لہجہ اشارہ کرتا ہے کہ مقتدر حلقوں کو وہ زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہ رہے۔ جس خط کے ذریعے انہوں نے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنے قانونی اور اخلاقی اختیار کا اظہار کیا، اس کی حیثیت ایک کاغذی شیر سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ریاست کے سربراہ کے طور پر وہ پرآسائش عہدے پر براجمان ہیں جہاں سے انہیں کوئی بھی رخصت نہیں کر سکتا۔ ملک میں منتخب حکومت کی عدم موجودگی کے باعث صدر عارف علوی کا مواخذہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ان کے رخصت ہونے کی محض ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی مرضی سے استعفیٰ دے دیں۔

صدر علوی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ آئینی اور قانونی بحث میں قطعاً نہیں پڑنا چاہتے، بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ جن کے رہنما شہباز شریف نے سبکدوش ہونے سے قبل بطور وزیر اعظم الیکشن قوانین میں ترمیم متعارف کروائی تھی۔ الیکشن قوانین میں 23 ویں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ صدر پاکستان سے مشاورت کیے بغیر انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ وکلا حضرات اس معاملے پر بحث کر سکتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ پر پیدا ہونے والے کسی تنازعے کی صورت میں صدر مملکت کو حاصل آئینی برتری انہیں زیادہ بااختیار بناتی ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر مملکت 'بوائز'، جیسا کہ فوجی جرنیلوں کو پاکستان میں پکارا جاتا ہے، کو کچھ زیادہ پریشان کرنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ انہوں نے خط کے ذریعے جلد انتخابات کروانے کے لیے بجائے کوئی سخت مؤقف اپنانے کے، اپنے اخلاقی فرض کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض ایڈوائس دینے پر اکتفا کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے مفادات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ صدر علوی اپنے ذاتی مفادات کو بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ مہینے انہوں نے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں ریٹائرمنٹ کے بعد صدر علوی کی پنشن میں بھی خودبخود اضافہ ہو جائے گا۔ صدر عارف علوی بھی طاقت کے ایوانوں میں موجود باقی لوگوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ صدر علوی کا خط اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ انہیں اس بات کا مکمل طور پر احساس ہے کہ ملک کے اصل بااختیار حلقے جلد انتخابات کے خواہاں نہیں ہیں۔

انتخابات یقینی طور پر 6 نومبر کو نہیں ہو سکتے کیونکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے۔ سیاسی حلقے غیر اعلانیہ طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ ن لیگ اگر اگلی حکومت بنانا چاہتی ہے تو نواز شریف کو عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے وطن واپس آنے کے بعد کم از کم تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔ تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے کئی صحافی جن سے میری بات ہوئی، وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی موجودگی بھی ن لیگ کو اپنے آبائی انتخابی حلقے یعنی لاہور میں پھر سے مضبوط بنانے میں کارگر ثابت نہیں ہو پائے گی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہی وجہ ہے نواز شریف آنے والے انتخابات میں اوکاڑہ کے ایک حلقے سے بھی کھڑے ہوں گے۔ اس سے قبل اوکاڑہ کی یہ نشست ن لیگ کے راؤ اجمل خان کے پاس تھی۔

ن لیگ کیا کرے گی؟

صدر علوی کی سیاسی چالوں کے باوجود، اگلے سال کے اوائل میں انتخابات ہونے کے امکان ففٹی ففٹی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار رضا رومی کا خیال ہے کہ مغرب کے دباؤ کے باعث فروری یا مارچ 2024 سے پہلے انتخابات ہو جائیں گے۔ امریکی حکومت اور یورپی یونین پاکستان کو ملک میں انتخابی جمہوریت کے عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت کے بارے میں نرمی سے یاد دلاتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو ان ملکوں کی جانب سے بڑے امدادی پروگرام بند ہو جائیں گے۔

بہرحال، دنیا بھر میں اس بات میں اتنی دلچسپی نہیں نظر آتی کہ پاکستان میں انتخابات کیسے کرائے جائیں گے۔ اگر سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے، تو ایک انتہائی قابل اعتراض عبوری حکومت، جو دور دور تک غیر جانبدار نظر نہیں آتی، اس ارادے کے ساتھ الیکشن منعقد کروائے گی کہ عمران خان اور ان کی بچی کچھی جماعت پی ٹی آئی کے لیے معاملات مزید مشکل بنا دیے جائیں۔

اسلام آباد میں یہ چہ مگوئیاں زوروں پر ہیں کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور پوری کابینہ کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ وہ اگلے 9 ماہ تک اقتدار میں رہیں گے۔ جس طرح نواز شریف کے دور حکومت میں پرنسپل سیکرٹری رہنے والے فواد حسن فواد جیسے غیر منتخب لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے اس سے جلد انتخابات کی بہت زیادہ امید نظر نہیں آتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت، یا حکومت کے پیچھے موجود طاقتیں، انتخابات کے انعقاد سے قبل معاملات کو تیز رفتار کرنا چاہیں گے، نہیں تو انتخابات میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اگر انتخابات نومبر میں ہی ہوتے ہیں جیسا کہ صدر مملکت چاہتے ہیں تو امکان ہے کہ موجودہ اقتصادی حالات کے باعث عوام ن لیگ سے ناخوش ہوں گے اور وہ پی ٹی آئی کی طرف زیادہ مائل ہوں گے۔ صحافی کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف ایسے لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ کیسے کریں گے جنہوں نے اپنے بچوں کو سکول سے نکلوا لیا ہے کیونکہ وہ یا تو سکول کی فیس دے سکتے تھے یا بجلی کے بل جمع کرا سکتے تھے؟'

ایسے وقت میں جب عوام تباہ حال معاشی حالات کا سامنا کر رہے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کی کم و بیش پوری قیادت لندن میں آرام سے بیٹھی ہے۔ اس طرح لوگوں کی حمایت نہیں حاصل کی جا سکتی، خاص طور پر پنجاب کے شہری علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی تو بالکل بھی نہیں۔

انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا انحصار براہ راست شہباز شریف کی گذشتہ حکومت کی معاشی کارکردگی پر ہو گا۔ یا پھر موجودہ عبوری حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کی جو توقعات پیدا ہوں گی یہ اگلی منتخب حکومت کی مقبولیت پر بھی اثرانداز ہوں گی۔ اربوں ڈالر ملکی خزانے میں لائے بغیر، جن سے متعلق آرمی چیف جنرل عاصم منیر وعدہ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آئیں گے، انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد کو پولنگ سٹیشنز تک لانا ممکن نہیں ہو گا اور مسلم لیگ ن کے تب تک واضح اکثریت حاصل کرنے کے امکانات کم ہوں گے جب تک پاکستان تحریک انصاف کو دوڑ سے باہر کرنے کا راستہ نہیں نکال لیا جاتا۔

ڈوریاں اب بھی فوج کے ہاتھ میں ہیں

پاک فوج جو کہ عملی طور پر اس شو کو چلا رہی ہے، خواہش مند ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ ذرائع کے مطابق انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ایک سینیئر نمائندے کی جانب سے دی گئی ایک حالیہ پریزنٹیشن میں ان تمام قومی اثاثوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے جنہیں حکام فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت اگر اس میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے، تب بھی یہ اقدام حکومت کو فوری درکار نقد رقم مہیا نہیں کر پائے گا اور فوری رقم ہی قومی ایئرلائنز کی جبری بندش کو روک سکتی ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں، دیگر لوگوں کے علاوہ بعض سینیئر جرنیل بھی غیر ملکی کرنسی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں تاہم مارکیٹ میں اب بھی غیر ملکی کرنسی بہت مشکل سے مل رہی ہے۔

اگرچہ کوئی معاشی معجزہ رونما ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم اسٹیبلشمنٹ اب بھی طاقت کے استعمال اور جوڑ توڑ کے ذریعے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کسی شبے سے بالاتر ہے، ان کی پارٹی الیکشن جیت سکتی ہے لیکن صرف اس صورت میں اگر اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ملے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے الیکشن لڑنے کا خطرہ مول کون لے گا اور ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہو گی؟

پاک فوج پی ٹی آئی کو ختم کرنے کے لیے وہی فارمولہ استعمال کر رہی ہے جو ماضی میں دوسروں کے خلاف استعمال کرتی آئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب کی بار شدت زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی کی حالت ٹائی ٹینک جیسی دکھائی دے رہی ہے جس کی ٹکر فوج کے آئس برگ سے ہو گئی تھی۔ ڈوبنے کے ڈر سے بیش تر الیکٹ ایبلز نے جہاز سے چھلانگیں لگا دی ہیں۔ وہ لوگ جو اب بھی جہاز میں موجود ہیں، جیسا کہ نواب آف بہاولپور کا خاندان، پولیس ان کے پیچھے پڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی خاندان ہے جس نے دیگر شاہی ریاستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی پہلی حکومت کو 1947 کے بعد ریاستی اخراجات کے لیے رقم فراہم کی تھی۔

بلاشبہ عمران خان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ انہیں پہلے ہی نااہل قرار دیا جا چکا ہے اور سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی پر انہیں کڑی سزا دی جائے گی۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جیسے ان کی پارٹی کے بعض رہنماؤں کو سابق وزیر اعظم کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فوج کی موجودہ قیادت اور آنے والی حکومت جسے فوج لانا چاہے گی، ان کی موجودگی میں یہ نوشتہ دیوار ہے کہ عمران خان اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ اپنی مقبولیت کے باوجود، عمران خان زیادہ کمزور ثابت ہوئے کیونکہ اپنی سیاسی طاقت پر انحصار کرنے سے زیادہ ان کا دارومدار فوج پر رہا۔ انہوں نے ایسی سیاسی غلطیاں کیں جو ان کے زوال کا باعث بنیں۔ عین اسی طرح جیسے عمران خان کے حریفوں نے بعض سیاسی غلطیاں کیں مگر جنہیں وہ اپنی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے سال ہائبرڈ نظام حکومت کے ہوں گے اور یہ ہائبرڈ جمہوریت نہیں بلکہ ہائبرڈ مارشل لاء کا دور ہو گا۔

**

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا یہ مضمون بھارتی اخبار The Wire میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔