دن بھر کیمرا اور پھر رکشہ چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے ابراہیم برہانی چھٹی نہیں کرتے۔ گھر کا کرایہ، راشن، بچوں کی سکول فیس اور ادویات کیلئے رقم پوری کرنے کا حساب اُنہیں رات بھر سونے نہیں دیتا۔ ایک نجی چینل میں بطور نیوز کیمرا مین کام کرنے والے ابراہیم کہتے ہیں کہ گذشتہ 15 سال سے مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور کیمرا مین کام کر رہا ہوں لیکن گذشتہ 4 سال کا دور انتہائی تکلیف دہ رہا ہے۔ جب ملک میں مہنگائی کا طوفان اُٹھنا شروع ہوا تو میڈیا ورکرز کی مشکلات بھی بڑھنے لگیں۔ ایک تو مہنگائی کے حساب سے انتہائی قلیل تنخواہ اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی جس کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ بالآخر اُنہوں نے میڈیا کی ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد دوسرے کام کا سوچنا شروع کیا۔
میڈیا کے بیش تر اداروں میں تنخواہ وقت پر نہیں ادا کی جاتی جبکہ ایک چینل چھوڑ کر دوسرے چینل میں جانے کے نتیجے میں ہی تنخواہ میں کچھ بہتری آ سکتی ہے ورنہ تنخواہوں کا بڑھنا بھی محال لگتا ہے۔ ابراہیم نے 4 ماہ قبل نئے نجی چینل کو جوائن کیا ہے جہاں تنخواہ سابقہ نجی چینل سے بہتر اور وقت پر ملتی ہے لیکن مہنگائی کے اس دور میں پھر بھی گزارا مشکل ہے۔
نیوز چینلز میں جاب کرتے ہوئے کوئی اور کام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ نیوز چینلز میں شفٹ تبدیل ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے کسی اور ادارے کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ابراہیم کے پاس سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام کرنے کا راستہ بند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے کسی اور کا رکشہ دیہاڑی پر چلانے کا معاہدہ کیا جس کے تحت وہ روز کے پانچ سو رکشہ کے مالک کو دیتے ہیں جبکہ آدھے دن میں جو پیسے بچ جائیں وہ اُن کے ہوتے ہیں۔ ابراہیم کے مطابق وہ تنخواہ سے گھر کا کرایہ، راشن، بچوں کے سکول کی فیس اور قرض بمشکل ہی ادا کرتے ہیں جبکہ رکشہ سے کمائے جانے والے پیسے روزانہ کے پانچ سو یا ہزار سے اپنا ذاتی خرچ اور گھر کا روزانہ کا خرچ پورا کرتے ہیں۔
ابراہیم برہانی کہتے ہیں کہ تنخواہ کم اور وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے و ہ ذہنی اذیت میں رہتے تھے۔ مالک مکان کا خوف اور گھر والوں کی طرف سے راشن کی دُہائیاں اُنہیں نفسیاتی مسائل کا شکار کر رہی تھیں جس کی وجہ سے اُنہوں نے سگریٹ نوشی بھی شروع کر دی۔ اُن کے نفسیاتی تناؤ کو ایک دوست نے محسوس کرتے ہوئے اُنہیں دوسری نوکری کرنے کا مشورہ دیا لیکن بار بار تبدیل ہونے والی ڈیوٹی ٹائمنگ کی وجہ سے اُنہوں نے معذوری ظاہر کی تو ان کے دوست نے انہیں رکشہ چلانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ صبح شام کسی بھی وقت چلا سکتے ہو۔ اس مشورے پر عمل کیا تو کسی حد تک اپنے مالی حالات پر قابو پا لیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافی اور میڈیا ورکرز کیلئے کوئی اور کام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ آدھی زندگی میڈیا کو دینے والے افراد آج کل میڈیا کی فیلڈ چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن روزگار کے مواقع کم اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام بھی شروع نہیں کر سکتے اور آئے روز میڈیا پر دھماکے، فائرنگ، احتجاج اور تشدد سے جڑی دیگر خبروں کی کوریج، ہیڈ آفس کے پریشر اور گھریلو مسائل کے باعث بیش تر صحافی بلڈ پریشر، شوگر اور دل کی بیماریوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
نجی چینل میں 10 سال بطور انجینیئر کام کرنے والے عمران رانا حال ہی میں میڈیا کی فیلڈ چھوڑ کر کوئٹہ سے اپنے گاؤں منتقل ہو گئے اور اپنی زمینوں پر کام کر رہے ہیں۔ عمران کہتے ہیں کہ انجینیئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد میڈیا میں بطور سیٹلائٹ انجینیئر کام شروع کیا تھا اور آخری 10 سال میڈیا کی فیلڈ میں لائیو وین اور فکس لنک آپریٹنگ کا تجربہ ہونے کی وجہ سے تین چینلز میں کام کیا جہاں کچھ تنخواہ میں اضافہ ہوا لیکن اب اس مہنگائی میں موجودہ تنخواہ میں گزارا کرنا مشکل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میڈیا کی فیلڈ چھوڑ دی ہے۔ 10 سال میڈیا کو دینے کے بعد اب کہیں اور ملازمت کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے تنخواہ انتہائی کم آفر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فی الحال گاؤں میں کم رقبے پر مشتمل اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔
نفسیاتی مسائل پر کام کرنے والی ڈاکٹر سعدیہ اشفاق کہتی ہیں کہ نفسیاتی بیماری ظاہر نہیں ہوتی لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے عیاں ہوتی ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ یہی نفسیاتی مسائل آگے چل کر بڑے بن جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں مالی مسائل بھی نفسیاتی صحت کو شدید متاثر کرتے ہیں۔ روزمرہ کے اخراجات، مہنگائی اور اُجرت وقت پر نہ ملنا شدید پریشانی کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی تناؤ، چڑچڑا پن، غصہ پیدا ہوتا ہے جس سے گھریلو جھگڑے جنم لیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بیش تر واقعات میں مرد حضرات اپنے دفاتر اور روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنی زوجہ اور بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو خاتون اور بچے بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسی صورت حال میں انسان کو مسائل کے بارے میں سوچنے کے بجائے حل کی طرف جانے کو ترجیح دینی چاہئیے ورنہ انسان نشے اور دیگر برائیوں کی طرف بھی چلا جاتا ہے۔ دماغ کو وقتی سکون دینے کیلئے کئی افراد نشے کا سہارا لیتے ہیں جو انتہائی خطرناک عمل ہے۔
سعدیہ اشفاق کہتی ہیں کہ اُنہوں نے ایک ادارے میں بلوچستان کے صحافیوں کی ذہنی صحت سے متعلق کام کیا تھا جہاں مختلف چینلز کے میڈیا ورکرز سے بات ہوئی۔ اس میں زیادہ تر صحافیوں اور میڈیا ورکرز نے بتایا کہ جب حالات خراب تھے تو اُنہیں خواب میں دھماکے، فائرنگ، لاشیں اور ایمبولینس کے سائرن سنائی دیتے تھے جبکہ کچھ نے تو کہا کہ اُنہیں اکثر ایسا لگتا ہے کہ موبائل بج رہا ہے اور جب جیب سے نکالو تو کوئی کال نہیں آئی ہوتی تھی۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ میڈیا ورکرز کافی حد تک ذہنی تناؤ کا شکار ہیں جنہیں کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے میں خصوصاً میڈیا کے دفاتر میں ذہنی مسائل سے متعلق کونسلنگ ڈیسک کا ہونا انتہائی ضرورت کا حامل ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور رند اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مالی مسائل سے صحافیوں کی ذہنی صحت پر اثر پڑ رہا ہے۔ بلوچستان میں صحافت کرنا کبھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ ایسے میں مالی مسائل کی وجہ سے صحافیوں کی ذہنی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ہمارے پاس یونین کی سطح پر آئے روز صحافیوں کے مالی مسائل کی وجہ سے مختلف درخواستیں آتی رہتی ہیں۔ کسی کے پاس بیماری کا علاج کرانے کے پیسے نہیں ہوتے، کسی کے پاس اپنی یا بچے کی شادی کیلئے پیسے نہیں ہوتے تو کسی کے پاس بچوں کی سکول فیسیں جمع کرانے کو پیسے نہیں ہوتے جبکہ کئی صحافیوں نے اپنے بچے اچھے سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروا دیے ہیں کیونکہ بروقت تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی تھی اور فیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو بھی سکول میں شرمندگی کا سامنا رہتا تھا۔
منظور بلوچ کے مطابق گذشتہ 8 سال سے میڈیا میں تنخواہ میں تاخیر، کمی، کٹوتی اور تنخواہوں میں سالانہ اضافے کا نہ ہونا جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ الیکشن سے قبل کئی نئے ٹی وی چینل یا اخبارات آتے ہیں، بھرتیاں کر لیتے ہیں اور پھر ڈاؤن سائزنگ کے نام پر صحافیوں کو بے روزگار کر دیتے ہیں یا پھر چینل بند کر دیتے ہیں۔
تنخواہوں کے مسائل کے حل کیلئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے ملکی سطح پر تحریک چلائی جس میں حکومت اور معاشرے کے مختلف طبقات کو میڈیا ورکرز کی مالی مشکلات کا بتایا کہ وہ کس حال میں کام کر رہے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ وفاقی حکومت نے پیمرا کے ایکٹ میں ترمیم کی اور اشتہارات کی ادائیگی کو تنخواہوں کی ادائیگی سے مشرط کر دیا۔اس ترمیم کے مطابق جس ادارے پر 2 تنخواہیں بقایا ہوں گی اس چینل کا لائسنس بھی منسوخ ہو گا۔ اس کامیابی کا سہرا تمام یونینز کو جاتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم سروس سٹرکچر پر بھی کام کر رہے ہیں تا کہ تنخواہوں میں جو عدم توازن ہے وہ ختم کیا جائے اور کیمرا مین، رپورٹر، انجینیئر سمیت تمام میڈیا ورکرز کو سکیل کے حساب سے تنخواہ دی جائے۔
اُنہوں نے کہا کہ حال ہی میں آنے والے بول چینل کے اخبار کا معاملہ دیکھیں جنہوں نے اچھے اداروں سے صحافی توڑے اور پھر اخبار بند کر دیا جس کی وجہ سے اچھے پروفیشنل صحافی بے روزگار ہو گئے۔ اس طرح اب بھی کئی ادارے ڈاؤن سائزنگ کا سوچ رہے ہیں۔ سب سے پہلے بی یو جے نے پی ایف یو جے کے سامنے یہ مسئلہ اُٹھایا ہے کہ حکومت سے بات کی جائے کہ کسی بھی چینل کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ جو لائسنس لے رہا ہے کیا وہ ادارہ چلا بھی سکتا ہے کیونکہ اس طرح پروفیشنل صحافی بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ پہلے ہی ٹیکنالوجی کی وجہ سے میڈیا کی فیلڈ تنگ ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں اس طرح کے اقدامات ناقابل برداشت ہیں۔
ایک نجی چینل سے نکالے جانے والے سینیئر کیمرا مین کے 22 سالہ بیٹے فرید علی کہتے ہیں کہ بچپن سے اپنے والد کو میڈیا میں کام کرتے دیکھا مگر میڈیا کو زندگی کے 35 سال دینے کے باوجود آج تک اپنا گھر نہیں بنا سکے جبکہ کئی ایسے صحافی ہیں جنہوں نے تین تین گھر بنا لیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ معاشی حالات سے پریشان والد صاحب ہمیشہ میڈیا چھوڑنے کا کہتے رہے لیکن متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ فرید کو سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہمیشہ فیس کی تاخیر سے ادائیگی کا سامنا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 18 سال کی عمر سے وہ پڑھائی اور ملازمت ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرید علی کے والد کو سال 2022 کے شروع میں ایک بڑے نجی چینل نے اس لیے نوکری سے نکال دیا تھا کہ وہ بیمار تھے اور علاج کیلئے 22 دن کی چھٹی مانگی تھی۔
فرید اس بات سے مایوس نہیں بلکہ خوش ہیں کہ چینل نے ان کے والد کو ملازمت سے نکال دیا کیونکہ اُس چینل میں تنخواہ 2 ماہ بعد ادا کی جاتی تھی جبکہ ڈیوٹی پر جانے اور آنے کا کوئی وقت بھی نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے والد نے اب فاسٹ فوڈ کی دکان کھول لی ہے جس سے ان کی آمدنی پہلے سے کہیں اچھی ہو گئی ہے اور اُن کی صحت بھی بہتر ہو گئی ہے۔ اگر آج بھی والد چینل میں ہوتے تو صحت اور مالی پوزیشن دونوں مزید خراب ہو چکے ہوتے۔
کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر عبدالخالق رند کہتے ہیں کہ بیش تر صحافی کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں، تنخواہوں کی تاخیر سے اُنہیں ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ صحافیوں کی یونینز کا مطالبہ رہا ہے کہ تنخواہیں بڑھائی جائیں لیکن اب پہلا مطالبہ یہی ہے کہ تنخواہیں وقت پر دی جائیں اور پھر دوسرا مطالبہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ پریس کلب ایک انٹرٹینمنٹ ادارہ ہے جس کا کام صحافیوں کو بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس وقت کئی ایسے چینل بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملازمین کو آفس تک نہیں دیا، جس کی وجہ سے وہ کبھی پریس کلب اور کبھی کہیں بیٹھتے ہیں۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ صحافیوں کی ذہنی صحت اور روزمرہ کی ڈیوٹی روٹین سے نکلنے کیلئے اچھی سرگرمیاں کی جائیں جس کے لیے ہم مینگو پارٹی، کرکٹ لیگ سپورٹس فیسٹیول وغیرہ جیسی مختلف سرگرمیاں کرتے ہیں تا کہ گھٹن زدہ ماحول میں صحافیوں کو کچھ راحت مل سکے۔
محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر نور کھیتران کہتے ہیں کہ اخبارات میں تو ہماری کوشش رہی ہے میڈیا ورکرز کے معاملات حل کیے جائیں اور سابقہ حکومتیں بھی یہی کرتی رہی ہیں۔ اخبار مالکان کو ہم پابند کرتے ہیں کہ اگر آپ کو اشتہار مل رہا ہے تو پھر ورکرز کا بھی خیال رکھیں۔ دوسری جانب تمام میڈیا چینلز کے ہیڈ آفس بلوچستان سے باہر ہیں۔ پھر بھی ماضی کی حکومتوں اور محکمے کے افسران بالا نے میڈیا چینلز کے مالکان سے بھی یہ درخواست کی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے دفاتر بنائیں اور ورکرز کو وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی کریں۔ اب بھی محکمہ اطلاعات کا یہی مؤقف ہے۔