اس سے قبل اگر کچھ پردہ و نقاب باقی رہ گیا تھا تو وہ بھی اقتدار کی رواں لڑائی نے اڑا کر رکھ دیا ہے۔ اب خواہ عسکری اشرافیہ ہوں، عدالتی یا پھر سویلین؛ سب ہی عوام کی نظروں میں ننگے ہو رہے ہیں۔ اس لڑائی کا حاصل یہی واحد مدھم سی امید کی کرن ہے کہ شاید مستقبل میں عوامی شعور اجاگر کر کے یہ تاریک راہ کو روشن کر دے ورنہ فی الحال تو وہی عوام کے نام پر اقتدار کے بھاؤ تاؤ کی رسم قبیح رواں دواں ہے۔
آج بھی اگر تختہ مشق بنا ہے تو سیاست کا نام اور عوامی اداروں کی ساکھ۔ کچھ دنوں سے یہ تاثر ابھارا جا رہا ہے تھا کہ بالآخر پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کر ہی لی گئی لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ یہ بطور سیاسی چال بیرون سے منظور شدہ اور انجیکٹ کی گئی چال تھی، پارلیمنٹ کی اپنی فطری طاقت نہیں۔ اس مصنوعی توانائی سے آئین اور قانون کی گھاس میں لپٹے ہوئے ہتھوڑے کو قابو کرنا تھا۔ اس پارلیمنٹ میں منتخب کردہ حکومت کا موجودہ حال اور وقعت خود ہی سارا ماجرا سنا رہے ہیں۔
تازہ مثال ایک وفاقی وزیر کی جانب سے قومی اسمبلی میں مرحوم مفتی عبدالشکور صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے موقع پر تقریر اور ایک دن بعد اس پر عوامی سطح پر پیش کئی گئی وضاحت اور صفائی ہے۔ موصوف نے اپنی تقریر میں ایک سویلین محکمے کے باوردی ڈی جی کی طرف سے پروٹوکول کے نام پر دہشت پھیلانے کا تذکرہ کیا تھا۔ وہی بات کہ بندہ ہے تو سویلین محکمے کا ڈی جی لیکن تعلق اس کا ایک ایسے ادارے سے ہے کہ جس کا صرف نام ہی کافی ہے۔ بس پھر کیا تھا، بیچارے وزیر موصوف کے چراغوں میں تیل ہی نہ رہا اور لینے کے دینے پڑ گئے۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طاؤس و رباب والے محاذ کے مرد مجاہد کو بلا کر یہ پوچھا جاتا کہ بھئی آپ کو ایک سویلین پوزیشن پر کس نے اور کیوں تعینات کیا ہے؟ کیا آپ کے محکمے، معذرت کے ساتھ ادارے میں (ہمارے ملک میں دفاع ایک محکمہ ہے لیکن اس کی ذیلی فورس ادارہ ہے) اتنے ویہلے یا اضافی آفیسر موجود ہیں کہ سویلین محکموں میں جا کر بیٹھ گئے ہیں؟ کیا باقی سویلین محکموں میں کوئی اہل اور دیانت دار آفیسر باقی نہیں بچا؟ کیا آپ اس جاہ و جلال کا استحقاق بھی رکھتے ہیں؟ ایسا تب ہی ہو سکتا تھا اگر منتخب حکومت با اختیار اور پارلیمنٹ بالادست ہوتی تو۔ لیکن یہاں تو الٹا بیچارے وزیر موصوف کو ہی صفائی پیش کرنا پڑی۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ سویلین آسامیوں پر ایسے باوردی اہلکاروں کی تعیناتیوں کی تعداد اگر ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہے۔ کہنے کو تو نیوٹریلٹی آ گئی ہے، باجوہ بھی اپنا ڈاکٹرائن لے کر چلا گیا لیکن حکومت کو آج بھی یہ ہمت نہیں ہو رہی کہ اس پر بات تک کر سکے۔ اس معاشی بحران اور مہنگائی کے طوفان میں مسلسل عوام کی کھال اتارنے کے بجائے اگر حکومت دفاعی بجٹ پر بات کرتی یا کم ازکم اس قسم کی شاہی تعیناتیوں اور ان کی شاہانہ مراعات پر بات کرتی، ان کی کارکردگی اور دیانت داری کا تقابلی جائزہ لیتی تو حالات کیوں نہ بہتری کی طرف جاتے لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہوتا اگر حکومت کرایے کی نہ ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہ نام نہاد حکومتی اتحاد تین ججوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ مستزاد یہ کہ حکومت اور سپریم کورٹ دونوں آئین کے بجائے پنڈی کے طرف دیکھ رہے ہیں اور یہی شاید سکرپٹ کا مقصد تھا۔ کیونکہ آج ایک بار پھر سارا ملبہ سیاست دانوں پر گر رہا ہے اور سیاست دان بھی آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے نام پر مصلحت پر مصلحت دکھا رہے ہیں اور سودے بازی پر سودے بازی کرتے ہوئے اپنے آپ کو دائرے میں بند کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کو بند گلی میں پہنچا کر ایک بار پھر وہی پرانا راگ شروع ہو چکا ہے کہ اگر سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن لے کر کوئی راہ نہ نکالی تو مارشل لاء لگ سکتا ہے اور ظاہر ہے ایک مرتبہ پھر الزام سیاست اور سیاست دانوں پر لگا کر اس کو باامر مجبوری کا نام دیا جائے گا۔
ایک جانب حکومت اور پارلیمنٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق فیصلے (جس کی رو سے بعد میں صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کیلئے 14 مئی کا تعین کیا گیا) کو 3 کے مقابلے میں 4 ججوں کی طرف سے مسترد شدہ قرار دے کر اس کو ماننے سے انکار کیا لیکن دوسری طرف پھر بھی اس کے خلاف نظرثانی کی ممکنہ اپیل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اب یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ چیف جسٹس اور جی ایچ کیو کے مابین رابطہ ہوا ہے اور اس کے نیتجے میں فوجی حکام نے چیمبر میں چیف جسٹس کو سکیورٹی اور انتخابات کیلئے فورسز کی دستیابی کی صورت حال پر بریفنگ دی ہے۔
عنقریب صورت حال واضح ہونے کا امکان ہے کہ آیا چیف جسٹس صاحب کیلئے پارلیمنٹ کی رائے اہم ہے یا پنڈی والوں کی۔ اور مزید یہ کہ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے فیصلوں پر ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں یا عبدالقادر پٹیل کی طرح جاں بخشی کے طلب گار بنیں گے۔ اب یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصر نہیں کہ اس قسم کی صورت حال میں بھلے انتخابات مئی میں ہوں، اکتوبر میں یا پھر اگلے سال ہوں، ان کے نیتجے میں کس قسم کی حکومت بنے گی۔ جب تک جنرل باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ وغیرہ جیسے کردار ناقابل گرفت اور ناقابل احتساب ہوں گے تب تک یہ گورکھ دھندہ یونہی چلتا رہے گا اور عوام بدستور پستے رہیں گے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!