ملازمت کا دور چاہے کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو جائے اس کو ایک نہ ایک دن ختم تو ہونا ہوتا ہے۔ جس وقت آرمی چیف کو دوبارہ سے تین سال کا اقتدار حوالے کیا جا رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے خوب گُن گائے جاتے ہیں جیسا کہ پچھلے دو دنوں سے سُر تال کے ساتھ گائے جا رہے ہیں۔
آرمی چیف کی تعنیاتی اور مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے میرے دو چیدہ چیدہ سوالات ہیں، ایک یہ کہ ایسا کیوں ہے کہ تاریخ میں آج تک کسی ایسے جرنیل کو آرمی چیف نہیں بنایا گیا جو سب سے سینئر ہوتا ہے؟ ہمیشہ ہی کیوں ایک جرنیل کو خاص طور پر نیچے سے چنا جاتا ہے؟
دوسرا یہ کہ وہ حالات کون سے ہوں گے جب یہ نہیں کہا جائے گا کہ خطہ کی نازک صورتحال کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے؟
ہمارے حالات کب نازک نہ تھے۔ پچھلے40 سال سے ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پہلے روس کے خلاف، پھر نائن الیون کے بعد امریکہ کو اڈے دے کر طالبان کے خلاف اور اب ایک بار پھر ان سے چند قسمیں وعدے نبھا کے آئے ہیں۔ کتنے آرمی چیف آ کر چلے بھی گئے لیکن یہ خطہ نازک صورتحال سے نکلنے کا نام تک نہیں لیتا۔
جب صورت حال حسبِ معمول ہی خراب اور نازک ہو تو کب تک توسیع دی جائے گی؟ توسیع ملنے یا نہ ملنے، دونوں کے حق میں تاریخ میں مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ایک مثال سب سے نمایاں ہے جب 1930 کی دہائی میں دنیا عالمی کساد بازاری یعنی The Great Depression کا شکار ہو گئی، اس وقت امریکہ کے آئین میں پابندی نہیں تھی کہ صدر دو مدّتوں سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہ روایت ضرور تھی کہ دو سے زیادہ مرتبہ کوئی بھی امیدوار الیکشن کے لئے کھڑا نہیں ہوتا تھا، یہ روایت امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے رکھی تھی جب مقبولیت کے باوجود وہ تیسری مرتبہ کھڑے نہ ہوئے۔ چونکہ امریکی صدر فرنكلين ڈی رووزولٹ Franklin D Roosevelt نے امریکہ کو Recession سے نکالنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کی شروعات بھی ہو چکی تھی تو انہوں نے تیسری مرتبہ پھر سے صدارت کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور عوام نے بھاری ووٹوں سے خود ان کو توسیع دی۔ چونکہ جنگ جاری تھی عوام نے ان کو ان کی بیماری کی حالت کے باوجود چوتھی مرتبہ پھر چنا۔ اس کے اگلے ہی سال وہ انتقال کر گئے۔ یہ تھی وہ نازک صورتحال کہ جب آپ کو لوگ خود نہ چھوڑیں اور بضد ہوں کہ جب تک یہ مسائل ہیں آپ نہیں جائیں گے۔
جب بھی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے تاثر یہ لیا جاتا ہے کہ حکومتِ وقت نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو حکومت کے لئے آگے مسائل پیدا ہوتے۔ لیکن دیکھا تو یہ گیا ہے کہ چاہے توسیع دی جائے یہ نہ دی جائے مسائل تو پیدا ہوتے ہیں اور یہ مسائل رہیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے معاملات میں فوج کی مداخلت ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ملک چلانے کی بات آ جائے تو ایسا ممکن ہے نہیں کہ اس میں بندر بانٹ کی جائے کہ یہ کام آپ کر لیں اور یہ کام ہم کر لیتے ہیں۔ بھئی! یا آپ کر لیں یا ان کو کرنے دیجیئے جن کو آپ لاتے ہیں۔ یہ نہ تین میں نہ تیرہ میں والے فارمولے پہ ریاست نہیں چلتی۔
دنیا کے ہر ملک میں پسِ پردہ قوتیں ہوتی ہیں۔ وہ بھی اپنے ملک کی حکومتوں پہ دباوْ ڈالتی ہیں لیکن انتہائی حسساس معاملات پر، اور ایک دائرے کے اندر۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہاں کا عسکری ترجمان سماجی رابطوں کی ایپ میں بیان جاری کر دے کہ ہمیں وزیراعظم کا فلاں آرڈر قبول نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نقصان پورے ملک کا ہو گا۔ اور جب ملک کا نقصان ہو گا تو خود بخود ان کا بھی نقصان ہو گا۔ ہم اپنے گھروں میں بھی لڑائی کے دوران ایک دوسرے کی مِنت کرتے ہیں کہ آہستہ بولو! کہیں پڑوسی سن نہ لیں۔ جو پارٹی اس وقت زیادہ گرم ہو وہ جواب میں کہتی ہے کہ سن لیں نہ، بھاڑ میں گئے پڑوسی بھی۔ اور جب پڑوسی سنتے ہیں تو باتیں تو بناتے ہیں۔ پڑوسی کی باتوں سے کچھ اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن ریاست کے معاملات میں نہ صرف پڑوسی بلکہ پورے محلّے یعنی پوری دنیا میں آپ کے بارے میں کیا بات ہو رہی ہے، اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔
فرق ایسے پڑتا ہے کہ مذاق بنتا ہے ریاست کا، کوئی ملک ایسی ریاست کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ترقّی رُک جاتی ہے۔ اندرونی طور پر تو ہم محبِ وطن گانے سن کے اپنے لہو کو گرم کر لیں گے لیکن لہو گرم رکھنے سے ریاستیں نہیں چلتیں۔
مودی سے اب سے چند ماہ پہلے مشہور انڈین ٹی وی شو'آپ کی عدالت میں' کے میزبان رجت شرما نے ایک شو میں کہا کہ ان کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ اس پر مودی نے جواب میں کہا کہ جب خان صاحب وزیرِاعظم بنے تو میں نے انڈیا کے وزیراعظم ہونے کے ناطے ان کو مبارکباد کے لئے فون کیا اور ان سے کہا کہ ہم چالیس سال سے لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی سے ہم دونوں کو آج تک کچھ نہیں ملا۔ مزید یہ کہ آئیں پانچ سال کے لئے آپ پاکستان میں اور میں ہندوستان میں غربت کے خلاف لڑائی کرتا ہوں۔ جس پر خان صاحب نے کہا کہ میں پٹھان کا بچہ ہوں اور سچ بولتا ہوں، آئیں ایک نئی شروعات کرتے ہیں۔ یہ تو ہو گئیں میٹھی میٹھی باتیں لیکن اردو زبان میں ' لیکن' اور انگریزی زبان میں however'' ایسے الفاظ ہیں جو پچھلی کہی ہوئی بات کی یکسر نفی کر دیتے ہیں۔ یہی لفظ مودی نے استعمال کیا۔ لیکن سے لے کے آخر تک حرف بہ حرف جو انہوں نے کہا وہ پیشِ خدمت ہے
“ لیکن پاکستان کے ساتھ ایک سمسیا (مسئلہ) ہے، میں دنیا کے کئی حکمرانوں سے ملا ہوں اور ان سب کی بھی یہی رائے ہے کہ پاکستان میں بات کریں تو کس سے کریں؟ ملٹری سے کریں، وزیراعظم سے کریں یا پھر پارلیمنٹ سے کریں، مسئلہ یہ ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ آخر یہ ملک چلا کون رہا ہے؟"
مودی کی کہی ہوئی اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ آپ خود کیجیئے۔
عسکری اور سول رہنماوں کا بارہا یہ کہنا کہ ہم ایک پیج پر ہیں اس تنقید کی دلیل ہے کہ طاقت کا سرچشمہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں۔ چاہے عسکری اور سول قیادت بےشک ایک پیج پہ ہوں طاقت مکمل طور پر ایک ہی جگہ ہونی چاہیے۔ آپ کو بار بار یہ کہنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ آپ ایک پیج پہ ہیں۔
حقیقی جمہوریت اسی چیز کا نام ہے تاکہ عوام اپنی رسوائی کا کسی ایک شخص یا کسی ایک اکائی کو ذمہ دار ٹھہرا سکے۔ ہم جب سوال پوچھتے ہیں تو ہر کوئی ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب خان صاحب کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے تو ساتھ ہی ان پہ بھی تنقید کی جاتی ہے جنہوں نے ان کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا لیکن ہم ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں؟ ان کو جو حکومت کر رہے ہیں یا ان کو جنہوں نے یہ حکومت بنائی ہے؟
میاں صاحب کہتے ہیں کہ مجھے کارگل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ جبکہ جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو دو مرتبہ بریفنگ دے کہ سب کچھ بتایا گیا تھا۔ اب ہم کس کی مانیں؟ کس سے حساب لیں؟
چاہے میڈیا پہ نہ نظر آئے لیکن عوام میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ حکومت وزیراعظم نہیں چلا رہے بلکہ وہ ایک کٹھ پتلی ہیں۔ حکومت کے اپنے کئے ہوئے اقدام سے ایسا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تاثر مضبوط تب ہوا جب اچانک سے اسد عمر کو ہٹا دیا گیا اور ایک نا معلوم شخص جو امریکہ میں اپنے لئے کافی بھی خود بناتا ہو گا کو پاکستان کا وزیرِ خزانہ لگا دیا گیا۔ کوئی ایک مثال ہو تو حوالہ دیا جائے۔ اِنٹیریر منسٹری خود سے چھوڑ کر ایک فوجی کو دے دی۔ شاہ محمود قریشی کو زبردستی اسی چوک میں پھنسا دیا جہاں سے وہ کبھی بھاگ کے آئے تھے اور یہ تاثر مہر کی شکل اس دن اختیار کر گیا تھا جب حماد اظہر کو چوبیس گھنٹوں کے اندر ریونیو کی وزارت سے استعفیٰ دلوایا گیا۔ آخر انسان کی عزتِ نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ٹی وی پر تو اسد عمر، شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، فواد چودھری یہی کہیں گے کہ "خان صاحب کپتان ہیں" اور وہ بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس کے علاوہ وہ کیا کہیں؟ ہر کوئی تو چودھری نثار بننے سے رہا۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اِدھر اُدھر سے بندے اکٹھے کر کے حکومت چلائی جائے۔
مجھے ذاتی طور پر اس بات میں کوئی گمان نہیں ہے کہ چاہے خطے کے حالات جیسے بھی ہوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہوں یا کوئی اور، ہماری ریاست ہر قسم کی بیرونی جارحیت سے نمٹ لے گی تاہم اس دن کے لئے دعاگو ہوں کہ جب اس ملک کے وزیراعظم کو کوئی بھی کام کرنے یہ نہ کرنے پر تاویلیں نہ دینی پڑیں۔
اگر تو وزیراعظم نے یہ سوچ کر توسیع دی ہے کہ ان کو بھی توسیع مل جائے گی تو اس فیصلے سے ان کو یا ان کی حکومت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نصیب ہوتا ہے یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔ خطہ بہرحال کسی ایک شخص کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ جتنے حامی نظر آتے ہیں محض احتراماً ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر توسیع نہ دی جاتی تو بھی سب یہ کہہ رہے ہوتے کہ صحیح فیصلہ ہوا ہے۔ پھر سب نئے آرمی چیف کے گن گاتے ہیں اور یہی بات کہتے کہ ادارہ جب مضبوط ہو تو وہ ایک شخص کا محتاج نہیں ہوتا۔
پاکستان کے مبصرین کے تجزیے بھی عجیب سے عجیب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دن اپنے اوپر لُعنت بھیجتے ہیں اور اگلے دن پھر وہی راگ الاپتے ہیں۔