جیسے جیسے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ غلط شہری منصوبہ بندی نے صورتحال اور بھی بدتر بنا دی ہے۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے کیونکہ غیر منصوبہ بند شہری پھیلاؤ ملک کے بہت سے سرسبز مقامات اور قدرتی آبی گزرگاہوں کو کھا رہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں زیرِ تعمیر ملیر ایکسپریس وے اس پھیلاؤ کا ایک حصہ ہے۔ سندھ حکومت کا یہ ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبہ ہے جو کہ چھ لینوں پر مشتمل اور 38.75کلومیٹر طویل ہے۔ یہ ایکسپریس وے ملیر ندی کے سیلابی میدان پر تعمیر کیا جانا ہے جو اس کے بائیں کنارے کے ساتھ چل رہا ہے۔ نہ صرف یہ راستہ بحریہ ٹاؤن کراچی اور ڈی ایچ اے سٹی کی نئی شہری آبادیوں کو کراچی کے شمال مشرقی علاقے سے جوڑے گا بلکہ یہ جنوب میں بہت پہلے سے قائم شدہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بھی اِن سے منسلک کردے گا- اشرافیہ اور متوسط طبقے کے لئے بنائی گئی یہ گیٹڈ ہاؤسنگ سوسائیٹیز اُس زمین پر تعمیر کی گئیں ہیں جہاں کبھی کم آمدنی والا طبقہ آباد تھا۔ بہر کیف اِس طرح کے منصوبے شہر کو کئی طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں۔
کراچی کے سب سے بڑے سرسبز علاقے کا ‘صفایا کرنا’
ملیر ایکسپریس وے کے ذریعے پڑنے والے منفی ماحولیاتی اثرات پر شدید تحفظات ہیں۔ کراچی میں سر سبز علاقوں کی شدید کمی ہے۔ پورے شہر میں ایک یا دو ایکڑ کے صرف چند چھوٹے پارک ہیں۔ بن قاسم پارک، جو شہر کا سب سے بڑا پارک ہے، 80 ایکڑ پر محیط ہے۔ کراچی میں مقیم ماہرِ تعمیرات اور ماہر ماحولیات عارف بیلگامی کی تحقیق کے مطابق، اس کے برعکس، ملیر کے علاقے میں سر سبز علاقے، جنوب مشرق میں کورنگی کراسنگ سے مشرق میں شاہ فیصل پل تک پھیلے ہوئے ہے جس کا رقبہ 4,300 ایکڑ ہے۔
لیکن ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کی وجہ سے اس کے ارد گرد کے علاقوں کا استعمال تجارتی مقاصد کے لئے بھی کیا جائے گا۔ پچھلے سال اپنے ایک مضمون میں ممتاز ماہر تعمیرات اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے لکھا تھا کہ ’’کوریڈور کے ساتھ رئیل اسٹیٹ کی تعمیر کی اجازت کے نتیجے میں شہر کا یہ پھیپھڑا ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا۔‘‘
سر سبز علاقے کو تباہ کرنا شدید گرمی کے خطرات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ کراچی کو 2015 میں شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑا تو وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اِس بحران سے متعلق ایک تکنیکی رپورٹ میں کہا تھا کہ ‘ اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ’ ایک پیچیدہ وجہ تھی جو کہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں شہری علاقے اپنے ارد گرد کے علاقوں سے زیادہ گرم ہوتے ہیں جس کی وجہ تعمیر شدہ سطحوں کا گرمی جذب کرنا اور پودوں کے ٹھنڈے اثرات کی کمی ہے۔ اگر ملیر ایکسپریس وے تعمیر کیا جاتا ہے تو اس کے بعد آس پاس کے دیہی علاقوں کی شہرکاری خود بخود شروع ہو جائے گی جس سے ‘ اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ’ میں اور بھی تیزی سے اضافہ ہوگا۔
دنیا بھر کے بہت سے شہر ہوا کے معیار کو بہتر بنانے اور شہری ماحول کو ٹھنڈا رکھنےکے لئے بہت سے اقدامات کر رہے ہیں جس میں درخت لگانا، سبز چھتیں تنصیب کرنا، سرسبز علاقے کا اضافہ کرنا اور شہروں کی تعمیراتی ترتیب کو بہتر بنانا، لیکن پاکستان میں ہم اس کے بالکل برعکس ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
سر سبز علاقوں کو ختم کرنے سے حیاتیاتی تنوع کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ڈان کے لئے ایک مضمون میں محمد توحید لکھتے ہیں کہ ملیر ایکسپریس وے انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ (EIA) کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروجیکٹ سائٹ ایک ایسے علاقے میں واقع ہےجہاں کا ماحولیاتی نظام اچھا نہیں ہے لہذا اِس منصوبے سے محدود پیمانے پر ماحولیاتی نقصان ہوگا۔ لیکن ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیر کا علاقہ جنگلی حیات سے مالا مال ہے جہاں پرندوں کی 176 اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ حیاتیاتی تنوع اِن ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس وے کراچی کے شہری سیلاب کو مزید تباہ کن بنادے گا
فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ملیر ایکسپریس وے کراچی میں سیلابی صورتحال کو بھی مزید خراب کرسکتا ہے۔ ملیر ندی کی طغیانی شہر میں شہری سیلاب کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں مون سون کی بارشیں کثرت سے ہوں گی۔ بیلگومی کے مطابق، ایکسپریس وے، جو ملیر ندی کے سیلابی میدان پر بنایا جا رہا ہے تیز بارش کے دوران بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روک دے گا، جس سے ملیر ندی کے بارش کے پانی کو لے جانے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔
جبکہ شہر کے حکام نے ملیر ایکسپریس وے کے لئے نکاسی آب کے نالوں اور نکاسی کے زمین دوز راستوں کی تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر بیلگامی کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہوں گےاور یہ کہ اِن بند نکاسی آب کے نالوں کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔
کراچی اس مسئلے کا اکیلا سامنا نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ ایکسپریس وے جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے ایک بڑے مسئلے کا چھوٹا سا نمائندہ ہے۔ مثال کے طور پر جب 2022 میں جنوبی بھارت کےشہر بینگلور میں مون سون کی بارشیں تباہ کن سیلاب کا باعث بنیں تو موسمیاتی ماہرین نے کہا کہ غیر موزوں شہری منصوبہ شہر کی بربادی کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔
قانونی بے ضابطگیاں اور مقامی لوگوں کے خدشات کو دور کرنا
کراچی شہر پرملیر ایکسپریس وے منصوبے کی وجہ سے پڑنے والے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانےکے لئے ایک ٹھیکیدار کمپنی کے ذریعے انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ (EIA) رپورٹ تیار کی گئی تھی جسے اکتوبر 2021 میں سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کو منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔
سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ (SEPA) 2014 کے تحت ماحولیاتی تشخیص کا جائزہ لینے کے دوران سیپا (SEPA) کو عوام کے نمائندگان کو کسی بھی انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے مدعو کرناچاہیے۔ باوجود اِس کے کہ بہت سے متعلقہ شہریوں، ماحولیاتی ماہرین اور مقامی کاشتکاروں نے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کے انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ کے خلاف تحریری اعتراضات جمع کرائے ہیں اور عوامی سماعت میں حصہ لیا ہے۔ لیکن سیپا کی جانب سے ان اعتراضات پر کبھی غور نہیں کیا گیا ۔
مزید برآں، 2014 کے ایکٹ کے مطابق، کسی بھی منصوبے کا حامی ضروری ماحولیاتی تشخیص داخل کرنے سے پہلے تعمیر یا کام شروع نہیں کر سکتا۔ لیکن ایکسپریس وے کے لئے انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ اس منصوبے کے شروع ہونے کے کئی مہینوں بعد شائع کی گئی تھی۔
انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ میں سندھی اور بلوچی قبائل کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے جو مقامی باشندوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جنہیں اُن کی نسلی زمین سے بے گھر کیا جائے گا ۔ لیکن اب تک سیپا نے حصول اراضی اور آبادکاری کی پالیسی کی تشہیر نہیں کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ منصوبہ اس طرح سے شروع کیا جارہا ہے جو نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ مقامی لوگوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے اعلامیے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 10 میں کہا گیا ہے کہ مقامی لوگوں کو “ان کی آزاد، پیشگی اور باخبر رضامندی کے بغیر” منتقل نہیں کیا جائے گا۔
عوامی شرکت کی کمی ریو ڈیکلریشن برائے ماحولیات اور ترقی کے بھی خلاف ہے۔جس کے اصول نمبر 10 میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی مسائل “تمام متاثرہ شہریوں کی شرکت کے ساتھ بہترین طریقے سے حل کئے جاتے ہیں”، اور یہ کہ قومی سطح پر”ہر فرد کو فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے”۔ مقامی کسانوں کے مفادات کو نظر انداز کرکے ریاست یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے حقوق کو دوسروں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
پاکستان کے بیشتر حصوں نے زرعی اضلاع کے مخصوص زمینی استعمال کو زرعی سے شہری میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ جنوری 2022 میں راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے خلاف ایک درخواست میں لاہور ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ 1972 سے زرعی زمینوں، زیرِ کاشت کھیتوں اور جنگلاتی علاقوں کی غیر منظم شہر کاری (زرخیز زمینوں کی شہروں میں تبدیلی) ہو رہی ہے۔ لیکن شہر کاری کے اِن مقاصد کو پورا کرنےکے لیے زرعی اراضی کے حصول کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی قواعد نافذ نہیں کیے گئے۔ اگرچہ ترقیاتی کاموں سے فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن انہیں مقامی آبادیوں کی تباہی کی قیمت پر نہیں کیا جانا چاہیے۔