جنرل پرویز مشرف کو 2007 ایمرجنسی پر خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے جس پر پورے ملک میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں سابق آمر کی لاش ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دے کر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب وقار سیٹھ نے اور بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ ریاستِ مدینہ ثانی کے بانی وزیر اعظم عمران خان ایک قدم آگے جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سزا خلافِ شریعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاشوں کو لٹکانے کی اجازت نہ تو شریعت دیتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے علمبردار کبھی یہ چاہیں گے کہ انسانی جسم کی اس انداز میں بے حرمتی کی جائے۔ لیکن کیا جنرل مشرف کے حامیوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ وہ خود کیا کرتے رہے ہیں؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جنرل مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یاد دہانی کروائی ہے کہ مشرف کو ان کے دیگر جرائم کی سزا بھی ملنی چاہیے جن میں جبری گمشدگیاں، اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ آئیے، جنرل مشرف کے ان غیر قانونی اور متنازع اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
کارگل جنگ
اکتوبر 1998 میں پاکستان کے آرمی چیف بنائے جانے کے بعد جنرل پرویز مشرف کا سب سے پہلا کارنامہ کارگل جنگ تھا۔ اس جنگ کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ ان کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ جنرل مشرف بارہا کہہ چکے ہیں کہ تمام کارروائی نواز شریف کے علم میں تھی لیکن صحافی نسیم زہرہ کی کتاب From Kargil to the Coup میں وہ جنرل مشرف کے اس دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکتوبر 1998 میں ہی کارگل میں ’مجاہدین‘ داخل ہونا شروع ہو چکے تھے، اور نواز شریف کو پہلی بریفنگ مئی 1999 میں دی گئی، اور تب بھی انہیں مکمل صورتحال نہیں بتائی گئی۔ اس دوران فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے اور دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ لاہور بھی طے پایا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھارتی حکام کو اس معاملے کی خبر ہوئی تو انہوں نے اسے پاکستان کی جانب سے پیٹھ میں چھرا گھونپے جانے کے مترادف قرار دیا۔ کارگل جنگ نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اور کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو سفارتی سطح پر ایک ناجائز کاز بنا دیا۔
منتخب حکومت کا تختہ الٹنا
کارگل نے ہی نواز شریف اور جنرل مشرف کے درمیان ایک گہری خلیج پیدا کی۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف کو یہ اطلاعات دی جا رہی تھیں کہ جنرل مشرف ان کا تختہ الٹنے جا رہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو ان عہدے سے برطرف کیا تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو پابندِ سلاسل کر دیا۔ یہیں سے جنرل مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار کا آغاز ہوتا ہے۔
بغیر مشاورت کے امریکہ کو ہوائی اڈے فراہم کرنا
2001 میں 911 کے واقعے کے بعد جنرل پرویز مشرف سے امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کے لئے پاکستانی ہوائی اڈوں کا مطالبہ کیا۔ جنرل مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں امریکی آرمی کے سربراہ رچرڈ آرمٹیج کا فون موصول ہوا جس میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے سے گریز کیا تو اسے امریکہ کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف امریکی جنگ میں پاکستانی قوم کو جھونکنے کا فیصلہ کر لیا بلکہ پاکستانی ہوائی اڈے بھی امریکی فوج کے حوالے کر دیے۔ پاکستان کے کئی سابق افسران کہہ چکے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اگلے کئی سال پاکستان اس جنگ کی آگ میں جلتا رہا، اور آج بھی اس سے نبرد آزما ہے کیونکہ جنرل مشرف نے امریکہ کی تمام شرطیں بغیر کسی چوں چرا کے مان لیں۔ سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاؤل کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی تمام شرائط مان لی تھیں۔ جنرل مشرف رچرڈ آرمٹیج کی ایک ہی کال پر راضی ہو گئے۔
سینکڑوں پاکستانی شہریوں کو امریکہ کے حوالے کرنا
جنرل پرویز مشرف آج اس حوالے سے انکار کرتے ہیں لیکن ان کی کتابIn The Line of Fire میں وہ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ 2001 میں شروع ہونے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو دہشتگردی کے شبے میں امریکہ کے حوالے کیا۔ یہ انکشافات کتاب کے اردو ترجمے میں موجود نہیں اور جنرل مشرف بھی کہتے ہیں کہ ان لوگوں میں کوئی پاکستانی شہری نہیں تھا لیکن عافیہ صدیقی کا کیس ثابت کرتا ہے کہ ان میں پاکستانی شہریت رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ مشرف ہی کے دور میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔
2002 میں انتخابی دھاندلی اور نیب کا سیاسی استعمال
ہر آمر کی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی جمہوری legitimacy کی ضرورت تھی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے نیب کے ذریعے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں نقب لگائی۔ مسلم لیگ نواز کو توڑا گیا، اس کے لیڈران پر نیب کے کیسز بنائے گئے اور ان کیسز کے ذریعے پہلے مسلم لیگ ہمخیال اور بعد میں مسلم لیگ قائد اعظم تراشی گئی۔ 2002 کے انتخبات میں جھرلو پھیر کر مسلم لیگ ق کو فتحیاب کروایا گیا اور جب یہ سعی بھی ناکافی ثابت ہوئی تو کئی ماہ تک اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا۔ اس دوران پیپلز پارٹی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نام کا فاورڈ بلاک نکالا گیا جس میں سے پیپلز پارٹی کے 80 میں سے 22 ممبران شامل ہو گئے اور یوں بالآخر میر ظفر اللہ خان جمالی کو محض ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم پاکستان بنوایا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا مضحکہ خیز ترین الیکشن تھا جس میں رات کو ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر جیت جانے والے امیدوار صبح الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن میں ہار جاتے اور اس کے باوجود بھی فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا بدترین مظاہرہ ہی تھا جس نے فوجی آمر کے لئے عوامی حمایت کا ڈھونگ رچانے کا سامان کیا۔
قبائلی علاقوں میں طاقت کا بے جا استعمال
افغانستان پر حملے کے وقت مبینہ طور پر بہت سے القاعدہ دہشتگرد افغانستان سرحد عبور کر کے شمالی وزیرستان میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں شروع میں ہی داخل ہونے سے روکا جاتا کیونکہ پھر انہی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا جس کی زد میں سویلین عوام بھی آئے۔ ان آپریشنز کا سلسلہ 2004 میں شمالی وزیرستان سے شروع ہوا لیکن آہستہ آہستہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، خیبر ایجنسی تک پھیل گیا۔ بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں نمودار ہونے والے نئے چیلنج نے ان آپریشنز کو سوات، دیر اور بونیر تک پھیل گیا۔ اس جنگ نے پاکستان کے پرامن قبائلی علاقوں میں انتشار پیدا کیا اور وہاں کے ستائے ہوئے عوام آج اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں شمالی اور جنوبی وزیرستان سے پی ٹی ایم کی کامیابی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ڈرون حملوں کی اجازت
جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون جیسے قبیح اور غیر انسانی ہتھیار کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ اگلے چند سالوں میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہزاروں بیگناہ قبائلی شہریوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، بچے اور خواتین و حضرات اپاہج بھی ہوئے۔ 2013 میں اقوامِ متحدہ میں ایک unanimous resolution میں اس ہتھیار کی مذمت کی گئی جس کے بعد اس کے استعمال میں کمی آئی۔ ڈرون حملے آج بھی ہوتے ہیں مگر اس قرارداد کے بعد امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا پڑی اور اب ان کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے۔
مختاراں مائی پر غیر ملکی شہریت کے لئے rape کروانے کا الزام
2005 میں مختاراں مائی کا کیس منظرِ عام پر آیا۔ مختاراں مائی کو کئی افراد نے زنا بالجبر کا شانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر میڈیا میں اچھلا تو ستمبر 2005 میں جنرل مشرف نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں یہ پیسہ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں اور کینیڈا کا ویزا یا شہریت لے کر لکھ پتی بننے کی خواہش ہے تو خود کو rape کروا لیں۔ ان الفاظ نے پوری دنیا میں جنرل مشرف کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی قلعی کھول دی۔ پاکستان میں موجود ان کے بہت سے لبرل مداحین کی آنکھیں کھولنے میں بھی اس بیان نے کلیدی کردار ادا کیا۔
اکبر بگٹی قتل
ڈاکٹر شازیہ مری rape کیس بھی مشرف دور کی ایک تلخ یاد ہے۔ یہی وہ واقعہ تھا جس نے بلوچستان کے عوام کے احساسِ محرومی میں شدت پیدا کی۔ جنرل مشرف نے بلوچ قبائل پر فوج کشی کی، اور ایک بیان میں پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ اور بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں وہاں سے ماریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کیا آ کر لگا ہے۔ 26 اگست 2006 کو ایسا ہی ہوا جب ایک غار پر میزائل حملے میں اکبر بگٹی مارے گئے۔ اس قتل نے بلوچستان میں وہ آگ لگائی جس کے شعلے آج بھی ٹھنڈے نہیں پڑے ہیں۔ گذشتہ برس کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ ہو یا آئے روز پاکستانی فورسز پر ہونے والے حملے، یہ سب اسی قتل کا شاخسانہ ہیں۔ یاد رہے کہ اکبر بگٹی کے خلاف کیے گئے آپریشن میں پاک افواج کے کئی اہلکار بھی شدید ہوئے۔
چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تذلیل
مارچ 2007 میں جنرل مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کیا تو ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوا دیا گیا۔ اسی کیس کی پہلی پیشی کے دن افتخار چودھری کو نہ صرف بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا بلکہ وکلا پر ڈنڈے بھی برسائے گئے۔ اس تحریک نے زور پکڑا تو چیف جسٹس کو بحال کر دیا گیا لیکن جب افتخار چودھری نے این آر او اور مشرف کے باوردی صدارتی انتخاب لڑنے کے اقدامات کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی تو ایمرجنسی لگا کر نہ صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 60 سے زائد ججوں کو نوکریوں سے نکال دیا بلکہ انہیں گھروں میں محصور کر دیا۔ یہ ججز اگلے کئی ماہ تک محصور رہے اور بالآخر 18 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم الیکٹ یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کے فورم سے حکم دیا کہ ججز کی نظربندی ختم کی جائے۔ تب جا کر یہ نظربندی ختم ہوئی۔ جب کہ ججز کی بحالی کی تحریک اس کے بعد بھی جاری رہی جو کہ مارچ 2009 میں جا کر ان کی بحالی پر جا کر ختم ہوئی۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور نیب زدہ افسران کو این آر او دینا
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو سے مذاکرات کے بعد 12 اکتوبر 1999 سے قبل بنائے جانے والے جرائم سے متعلق مقدمات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بدلے میں انہیں صرف باوردی صدارتی انتخاب لڑنے کا موقع ملا۔ اپنی ذات کے لئے یہ فائدہ حاصل کر کے انہوں نے پیپلز پارٹی، بیوروکریسی اور اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے۔
لال مسجد آپریشن میں پھر طاقت کا بے جا استعمال
لال مسجد آپریشن نے جنرل پرویز مشرف کی مقبولیت کو سب سے بڑا دھچکا لگایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سربراہ نے طلبہ کو ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پر ابھارا تھا اور اس کا سد باب لازمی تھی لیکن پہلے تو لال مسجد میں اسلحہ بھرا جاتا رہا اور یہ سکیورٹی کی سطح پر بڑی ناکامی ہی تھی کہ اس مدرسے میں اتنا اسلحہ جمع کر لیا گیا کہ کئی دن تک فوج کا آپریشن جاری رہا تب جا کر لال مسجد clear ہو سکی۔ اس آپریشن کے حوالے سے بھی چودھری شجاعت کے مطابق بات چیت کے ذریعے حل نکالا جا چکا تھا لیکن پھر اچانک نجانے کیا ہوا کہ فوج کو آپریشن کا حکم دے دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن مشرف نے محض اس لئے کیا کہ امریکہ اور چین کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہیں اور لال مسجد میں اسلحے کو بلا روک ٹوک جمع ہونے دینے کی وجہ بھی یہی تھی کہ مغرب کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان میں جنرل مشرف نہ ہوں تو یہاں دہشتگرد قبضہ کر لیں گے۔
بینظیر بھٹو کو مناست سکیورٹی فراہم نہ کرنا اور بعد از قتل انہیں ذمہ دار ٹھہرانا
محترمہ بینظیر بھٹو اکتوبر 2007 میں پاکستان آئیں تو اس سے قبل انہیں بہت سی دھمکیاں دی گئیں۔ محترمہ کے قریبی دوست مارک سیگل نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں راولپنڈی کی انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل مشرف نے بینظیر بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ پاکستان آنے کی صورت میں ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے ایک خط کے ذریعے یہ الزام بھی لگایا کہ انہیں جنرل مشرف کے معتمد خاص برگیڈیئر اعجاز شاہ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی، سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم اور طالبان کمانڈر قاری سیف اللہ سے خطرہ ہے لیکن ان کو بطور سابق وزیر اعظم بھی فول پروف سکیورٹی نہ دی گئی۔ 18 اکتوبر 2007 کو جب ان کے قافلے پر کراچی میں حملہ ہوا، اس وقت بھی بینظیر بھٹو نے بتایا کہ ایک غیر ملکی انٹیلیجنس ایجنسی نے ان کو اطلاع دی تھی کہ چار خودکش بمبار ان کو قتل کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔ تاہم، انہیں مشرف حکومت نے سکیورٹی نہ دی۔ بالآخر 27 دسمبر 2007 کو وہ راولپنڈی میں قتل کر دی گئیں۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کی جائے شہادت کو دھو دیا گیا جس سے موقع واردات سے تمام ثبوت مٹ گئے۔ اور جنرل مشرف نے بھی ایک انٹرویو کے دوران بینظیر بھٹو ہی کو ان کی شہادت کا ذمہ دار قرار دے دیا کہ انہیں خطرات سے آگاہ کیا گیا تھا لیکن وہ پھر بھی پاکستان واپس آئیں۔ مارک سیگل نے ہی اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ 25 ستمبر 2007 کو ہونے والی بات چیت میں بی بی نے جنرل مشرف سے سرکاری سکیورٹی کا مطالبہ کیا تو جنرل مشرف نے ان کو جواب دیا کہ ان کو کس سطح کی سکیورٹی دی جائے گی اس کا دارومدار اس چیز پر ہے کہ وہ جنرل مشرف سے اپنے تعلقات کیسے رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فون کال بند ہونے پر بینظیر بھٹو غصے سے کانپ رہی تھیں کیونکہ جنرل مشرف نے ان کے ساتھ انتہائی غلط زبان استعمال کی تھی۔ جنرل مشرف کو بینظیر قتل مقدمے میں بری کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم کو وہ سکیورٹی نہیں دی جو کہ ان کا حق تھا اور بالآخر ان کو قتل کر دیا گیا۔