وفاقی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کی تعمیر سے متعلق مسئلہ پیر کو حل ہوگیا جب سٹی منیجرز نے ہندو برادری کو مجوزہ جگہ کے چاروں طرف دیوار بلند کرنے کی اجازت دے دی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت کی مالی اعانت سے ہندو مندر تعمیر کرنے کے ارادے پر رواں سال جولائی میں دائیں بازو کے گروپوں نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سی ڈی اے نے اچانک ہندو برادری کو پلاٹ کے اطراف چار دیواری کی تعمیر سے روک دیا تھا.
ایچ-9/2 میں چار کنال اراضی 2016 میں ہندو برادری کو مندر، شمشان گھاٹ اور کمیونٹی مراکز کی تعمیر کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔
سی ڈی اے نے باؤنڈری وال کی تعمیر روکنے کے لیے 'قانونی' وجوہات کا حوالہ دیا تھا۔
سوک ایجنسی نے پیر کو جاری کردہ اپنے اجازت خط میں کہا ہے کہ ایچ-9/2 میں ہندو برادری کے لیے شمشان گھاٹ کے چاروں اطراف باؤنڈری وال تعمیر کرنے کی اجازت اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کی شق 4.1.1 کے مطابق دی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ باؤنڈری وال کی اونچائی 7 فٹ سے زیادہ نہیں ہو گی اور دیوار کی لمبائی 3 فٹ سے کم نہیں ہو گی۔
سی ڈی اے کے ایک سینئر افسر نے مزید کہا کہ آج ہم نے ہندو برادری کو خط جاری کیا اور اب وہ قبرستان کے لیے باؤنڈری وال تعمیر کرنے میں آزاد ہیں، انہوں نے کہا کہ بعد میں ایک مندر اور کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کے معاملے پر بات کی جائے گی۔
اسی دوران ایک شہری کے ذریعہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں قبرستان کے قیام اور مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، عدالت نے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا تھا جس نے اکتوبر میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ اسلام آباد یا ملک میں کسی اور جگہ مندر بنانے کے لیے کوئی آئینی یا شرعی پابندیاں نہیں ہیں۔
کونسل نے اسلامی روایات اور شریعت کے ساتھ ساتھ دستور اور لیاقت نہرو معاہدہ 1950 کا حوالہ دیا اور حکومت کو اجازت دی کہ وہ سید پور میں قدیم مندر کے ساتھ ساتھ سید پور میں واقع دھرم شالا(کمیونٹی سینٹر) کو ہندو برادری کے حوالے کردے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے میں کہا گیا کہ ملک کے دیگر مذہبی گروہوں کی طرح ہندوؤں کو بھی آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق آخری رسومات کے لیے جگہ رکھیں۔