تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی عدالتوں میں زیر التوا رہا ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس عمران خان کے پرانے دوست اور تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف اور عمران خان پر دائر کیا تھا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ نہ صرف عمران خان پارٹی فنڈز میں خورد برد کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ممالک سے بھی رقوم پارٹی فنڈز کے مختلف کھاتوں میں جمع کیں۔ اکبر ایس بابر کے مطابق فنڈز تحریک انصاف کی قیادت اور عمران خان کی جانب سے صحیح طور پر استعمال نہیں کیے گئے اور تحریک انصاف کو بھارت اور اسرائیل سے بھی فنڈز موصول ہوتے رہے۔ اکبر ایس بابر یہ مؤقف بھی رکھتے ہیں کہ 2011 میں جب تحریک انصاف کے کھاتوں کا اندرونی آڈٹ کیا گیا تو اس میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ پارٹی کو غیر قانونی فنڈنگ مہیا ہوئی تھی لیکن اس رپورٹ کو تحریک انصاف نے منظر عام پر نہیں آنے دیا۔
اکبر ایس بابر کے مطابق امریکن شہری بیری سی سنیپز اور بھارتی نژاد امریکی شہری دسانج تحریک انصاف کو بین الاقوامی لابنگ کیلئے فنڈز مہیا کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا مؤقف یہ ہے کہ اکبر ایس بابر محض ذاتی عناد اور جماعت میں اعلیٰ عہدہ نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے ہمیشہ اس بات کو جھٹلایا ہے کہ اس نے بیرون ممالک سے اکٹھے کیے ہوئے فنڈز چھپائے ہیں یا ان میں خرد برد کی ہے۔ چند ہفتے قبل روزنامہ ڈان نے یہ انکشاف کیا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے پاکستان میں 18 ایسے بنک اکاؤنٹ موجود ہیں جنہیں کبھی ڈکلئیر نہیں کیا گیا اور الیکشن کمیشن کو سالانہ گوشوراے جمع کرواتے وقت تحریک انصاف نے ان بنک کھاتوں کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ تاہم، تحریک انصاف نے اس خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے لیکن ملک کے معتبر ترین اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے اور اکبر ایس بابر کے تحریک انصاف پر بیرون ملک فنڈنگ الزامات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=ZqgT08xK6hw
یہاں یہ یاد دہانی کروانی بیحد ضروری ہے کہ پاکستان کے آئین کے سیکشن 13 جو کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے متعلق ہے میں واضح طور پر یہ درج ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت بیرون ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں یا وہاں کے شہریوں اور غیر ملکی حکومت سے کسی بھی قسم کا پارٹی فنڈ نہیں حاصل کر سکتی۔ مزید برآں تمام سیاسی جماعتیں ہر مالی سال کے اختتام پر کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے تصدیق شدہ اپنے بنک کے کھاتوں کی آڈٹ رپورٹیں جو سالانہ آمدنی اور اخراجات، فنڈز کے ذرائع اور اثاثہ جات کو ظاہر کریں الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کی پابند ہیں۔
جبکہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف عدالت عالیہ کے بنائے گئے الیکشن کمیشن کے جانچ پڑتال کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی جس کے باعث کمیٹی تاحال تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈز کا آڈٹ مکمل نہیں کر سکی۔ اس کمیٹی کو عدالت عالیہ کی جانب سے ایک ماہ میں آڈٹ مکمل کر کے اپنی سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن قریب 10 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ کمیٹی تحریک انصاف کے عدم تعاون اور تاخیری حربوں کے باعث اپنا کام مکمل نہیں کر سکی ہے۔ تحریک انصاف نے 2014 سے لے کر آج تک ہر ممکن کوشش کی ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن ان کے کھاتوں کی جانچ پڑتال نہ کرے۔
اس ضمن میں تحریک انصاف نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشمن کے دائرہ کار پر اعتراضات اٹھائے اور کبھی اکبر ایس بابر کے مقدمہ دائر کرنے کے اختیار کے بارے میں۔ لیکن ہر فورم پر تحریک انصاف کے اعتراضات مسترد ہوئے اور الیکشن کمیشن کو تمام عدالتوں نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی چھان بین کا مجاذ قرار دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گذشتہ برس اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں یہ کہا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے تمام معاملات شفاف ہیں تو یہ آڈٹ سے کیوں گھبراتی ہے؟ مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے نے اسی غیر ملکی فنڈنگ کیس کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں عمران خان کی نااہلی کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ پہلے الیکشن کمیشن اس معاملے کی چھان بین کر لے اور تحریک انصاف پر اگر ان تحقیقات میں غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے عائد الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد عدالت عالیہ عمران خان کی اہلییت یا نااہلی کا معاملہ دیکھے گی۔
https://www.youtube.com/watch?v=mR3AOytV7FM
نِیا دورسے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کیس کو تکنیکی بنیادوں پر اعتراض لگا کر التوا کا شکار بناتی آئی ہے۔ اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ایک وکیل نے انہیں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ اس کیس کو مزید دس سال تک لٹکائیں گے۔ اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک سے کروڑوں روپے منگوائے اور اس کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ اکبر ایس بابر کے مطابق عمران خان کے قریبی دوست موبی اور عمران خان کے عزیز احد خان نے انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ اس کیس سے دستبردار ہو جائیں اور تحریک انصاف ان کی شکایت پر اس حوالے سے آڈٹ کروا دے گی۔ جبکہ اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ میں نے جواب دیا آپ جسٹس وجیہ الدین کی سربراہی میں ایک آڈٹ اور تحقیقاتی کمیشن بنا دیں جو بیرون ملک ہنڈی سے پیسے منگوانے اور پارٹی فنڈز میں خرد برد کی جانچ کرے۔ اگر میں غلط ثابت ہوا تو مجھے جو چاہیں سزا دیں۔
اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں اور تاخیری حربے صرف تکنیکی بنیادوں پر استعمال کر کے معاملہ دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے کے متعلق فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے تاکید کی ہے کہ جماعتوں کی فنڈنگ کے ذرائع اور ان کی چھان بین کا کام سنجیدگی سے کیا جائے اور یہ الیکشن کمیشن کی قانونی ذمہ داری ہے۔ اس فیصلے سے ہمارے کیس میں مزید جان پڑی ہے جسے التوا کا شکار بنایا گیا ہے۔ اکبر بابر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وکیل سے مشورہ کر کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے حوالے سے پھر سے الیکشن کمیشن میں یہ استدعا کریں گے کہ کیس کا فیصلہ جلد سے جلد کیا جائے۔ اکبر بابر کہتے ہیں آخر یہ کونسا آڈٹ ہے جو الیکشن کمیشن کی کمیٹی گذشتہ ایک برس سے کر رہی ہے اور ابھی تک اسے مکمل نہیں کر پائی۔
https://www.youtube.com/watch?v=rOxk52iGz0g
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہرحال میں اداروں کا احترام کرتا ہوں اور انہی اداروں کا در انصاف کیلئے کھٹکھٹاتا رہوں گا۔ نیا دور نے تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید سے اس مقدمے کے بارے میں تحریک انصاف کا مؤقف لینے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
غیر ملکی فنڈنگ کیس میں ایک اور اہم پہلو تحریک انصاف کی عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے وہ استدعا ہے جس میں الیکشن سے یہ کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے کھاتوں کی جانچ پڑتال کے عمل کو خفیہ رکھا جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی جماعت جس کا خود یہ ماننا ہے کہ اثاثے یا آمدنی کے ذرائع چھپانے یا انہیں ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ اور تامل کا مظاہرہ کرنا جرم قبول کرنے کے مترادف ہے وہ کیونکر الیکشن کمیشن سے اپنے فنڈنگ کے ذرائع کو خفیہ رکھنے کی درخواست کر رہی ہے؟ اور آخر کیا وجہ ہے کہ مقدمہ دائر ہونے کے ساڑھے پانچ برس بعد بھی یہ جماعت اپنے گوشوارے اور بنک اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع نہیں کروا سکی؟ غیر ملکی فنڈنگ کیس محض اکبر ایس بابر یا تحریک انصاف کے درمیان ذاتی عناد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بیحد سنجیدہ نوعیت کا مقدمہ ہے جس میں حمکران جماعت پر یہ الزام عائد ہے کہ اس نے ملکی قوانین پامال کرتے ہوئے نہ صرف بیرون ملک غیر قانونی ذرائع سے پارٹی فنڈ کے نام پر پیسے لیے بلکہ اس کی اعلیٰ قیادت ان میں خورد برد کی مرتکب بھی ہوئی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=RowYN4cL3C8
بہت سے عام لوگ اس کیس کی نوعیت کو لے کر کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا تحریک انصاف کو پارٹی فنڈ دینا جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ حقیقت میں یہ مقدمہ اس نکتے پر بحث نہیں کر رہا بلکہ یہ مقدمہ امریکی اور بھارتی شہریوں اور کمپنیوں سے پیسے لینے، ان میں خورد برد کرنے اور پارٹی کے فنڈز، اور ان کے ذرائع گوشواروں میں الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہ کرنے کے متعلق ہے۔
دوسرا تشویش ناک پہلو تحریک انصاف کے کمزور تنظیمی ڈھانچے کا ہے جس کے باعث اس جماعت کے اپنے مالیاتی امور میں بے ضابطگییوں پر قابو نہ پانے کی جھلک نظر آتی ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک جماعت اپنے تنظیمی امور کی مالی بے ضابطگیاں درست نہیں کر پاتی تو وہ پورے ملک میں ہونے والی مالی بےضابطگیوں کو کیسے درست کرے گی۔
تحریک انصاف کے مخالفین کا ماننا ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں عدالتوں کی جانب سے تحریک انصاف کو بہت ڈھیل دی گئی ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور جماعت ہوتی تو اب تک شاید اس کو پابندی کا نشانہ بنا کر اس کے سربراہ کو نااہل کر دیا جا چکا ہوتا۔ اس مقدمے میں تاخیری حربے استعمال کرنے اور الیکشن کمیشن کو اپنے پارٹی فنڈذ کی منی ٹریل فراہم نہ کرنا تحریک انصاف کی ساکھ پر سوالات کو جنم دیتا ہے اور تحریک انصاف کو جلد سے جلد اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر عمران خان اور تحریک انصاف اس مقدمے میں اکبر ایس بابر کے لگائے ہوئے الزامات جھوٹے ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنے پارٹی فنڈز کی منی ٹریل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف ناقدین کو خفت اٹھانا پڑے گی بلکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بطور ایماندار رہنما اور شفاف جماعت کے تشخص کو تقویت ملے گی۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔