پاکستان کی آئینی تاریخ کا اگر مجموعی جائزہ لیں تو پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک یہاں آئینی بحران ہی چلا آ رہا ہے، جن میں دو پہلے آئین نافض ہوئے اور مارشل لاء مسلط ہوتے ان کو منسوخ کر دیا گیا۔ جبکہ 1973 کے آئین میں بھی کئی ترامیم کی گئیں۔ یہ آئین بھی شاید کہ محفوظ نہ ہوتا مگر آرٹیکل 6 کے خوف نے، 1973 کے آئین کو ہمارے پاس رہنے پر مجبور کر دیا۔ اب بھی اگر اس آئین کو دیکھا جائے تو وہ اپنی اصلی شکل سے بالکل مختلف نظر آئے گا۔
آرٹیکل 6 کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ “1) کوئی شخص جو طاقت کے استعمال یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے آئین کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کاری کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ 2) کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ 3) مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے شخص یا اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔”
نو سالوں کے طویل عرصے کے بعد، پاکستان نے اپنا پہلا آئین نافض کیا۔ جو تقریباً دو سال نافذ رہا۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کا آئین کو منسوخ کرنے کا اعلانیہ سامنے آیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں مارشل لاء نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوا۔
https://www.youtube.com/watch?v=SteUBZjEHCo
اس کے بعد، 1962 میں ایک نیا آئین اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا گیا جو یکم مارچ 1962 سے نافذ ہوا تھا۔ جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی تھی۔ 8 جون 1962 راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لاء کو حتمی شکل دی گئی۔
1962 کے آئین میں صدراتی نظام لایا گیا اور صدر کو سارے اختیارات حاصل تھے۔ یہ آئین بھی صرف سات سال چل سکا۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لاء کے قدموں تلے دبوچ لیا گیا۔ ملک بھر میں بڑھتے احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو اپنے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے اپنے عہدے سے ہٹنے کے بعد سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔
اس کے بعد 1970 میں عام اتخابات کروائے گئے جس میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمٰن کی اکثریت کے باوجود ان کی حکومت نہیں بننے دی گئی اور ان کو بھارت کا ساتھ ملا جس کے بعد ہم نے پاکستان کے ایک ونگ، مشرقی پاکستان کو کھو دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور دوسرا مارشل لاء اپنے اختتام تک پہنچا۔
https://www.youtube.com/watch?v=59qM9wXJi44
10 اپریل 1973 کو قومی اسمبلی پاکستان نے متفقہ طور پر نیا آئین منتقل کیا جو 14 اگست 1973 سے لاگو ہوا۔ جس میں پارلیمانی نظام لایا گیا اور زیادہ اختیارات وزیر اعظم کو دیے گئے۔
1977 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت کے بعد، مشترکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے سمجھوتہ کرنے کا سوچا اور پھر اپنی بات سے ہٹ کر تاریخی 'یو ٹرن' نے جنم لیا۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے سمجھوتے سے انکار کیا اور اس بڑھتے تنازع سے پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مارشل لاء جنما۔ اس میں نیا یہ تھا کہ پچھلے دو مارشل لاؤں کی طرح آئین منسوخ نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد وسیع ترمیم کے بعد پھر سے یہ آئین بحال ہوا۔ آئین میں آٹھویں ترمیم کے بعد جنرل محمد ضیاالحق نے تیسری مارشل لاء کا خاتمہ کیا۔
ایک بہت بڑے بحران کے بعد پاکستان کا آئین ایک بار بھر معطل ہوا۔ پرویز مشرف نے ہنگامی حالت میں اعلامیہ جاری کیا اور خود چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔ عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کو تین سال تک مدت ملازمت کا وقت دیا۔ اس وقت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف نے پانچ سالوں کے لئے خود کو پاکستان کا صدر منتخب کیا۔
ایک طویل سیاسی بحران کے بعد پاکستان کی آئینی تاریخ کا ایک اور نفرت انگیز باب کھل کر سامنے آیا جس کا نام تھا 'این آر او' جس میں یکم جنوری 1986 کے درمیان سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کے سارے جرائم معاف کر دیے گئے۔
2008 کے عام انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت سے قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنا لی۔ اپریل 2010 میں صدر آصف علی زرداری نے اٹھارہویں ترمیم کی منظوری دے دی جس میں صدر پاکستان سے پارلیمان تحلیل کرنے کی طاقت چھین لی گئی۔
اور پی پی پی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد نون لیگ نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور اب پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت اس وسوسے کے ساتھ جاری ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو کہیں آئین سے نکال نہ دیا جائے۔
پاکستان کے دو آئین منسوخ ہونے کے بعد تیسرا آئین بھی دو بار معطل ہونے کے ساتھ ساتھ پچیس بار ترمیم کے عمل سے گزر چکا ہے، جس نے اس آئین کی حقیقی شکل بالکل بدل دی ہے۔
عروسہ ایمان ایل ایل بی کی شاگر کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اپنے احساسات و جذبات کو الفاظوں میں قید کرنے کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں بڑھتے تنازعہ اور مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ایک بہت سی چھوٹی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ نا کر سکو تو دل میں ہی بری چیز اور کسی برے عمل کو برا کہو۔ تو بس یہ الفاظوں کی جنگ کا یہی مقصد ہے۔