نیلم جہلم کرپشن: ایک افسر نے تین سال میں فیول کی مد میں 1 کروڑ 19 لاکھ روپے وصول کیے، انکوائری رپورٹ

نیلم جہلم کرپشن: ایک افسر نے تین سال میں فیول کی مد میں 1 کروڑ 19 لاکھ روپے وصول کیے، انکوائری رپورٹ
اسلام آباد: آزاد کشمیر کے ضلع مظفر آباد میں قائم نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں فیول چوری کی مد میں قائم کی گئی ایک کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ پراجیکٹ کےچیف فنانس آفیسر نے گذشتہ تین سالوں میں اپنی ذاتی گاڑی کے لئے فیول کی مد میں ادارے سے 1 کروڑ 19 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ تین سال میں گاڑی کے انجن تبدیل کرنے کی مد میں 36 لاکھ روپے وصول کیی۔ انکوائری سے متعلقہ دستاویزات نیا دور میڈیا کو موصول ہو چکی ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پراجیکٹ میں فیول چوری پر قائم کی گئی ایک انکوائری کمیٹی نے اپنی دستاویزات میں انکشاف کیا تھا کہ ادارے میں گذشتہ چھ مہینے میں دو کروڑ روپے کا فیول وصول کیا ہے۔ انکوائری کمیٹی نے کچھ اعلیٰ افسران کی الگ الگ فہرست جاری کی ہے مگر ادارے کے CFO حامد محمود نے فیول کی مد میں سب سے زیادہ فنڈز وصول کیے ہیں۔ یہ فنڈز ستمبر 2016 سے اگست 2019 تک وصول کیے گئے۔

واضح رہے کہ 969 میگا واٹ بجلی کی صلاحیت رکھنے والا نیلم جہلم پراجیکٹ کا تخمینہ اربوں روپے بڑھ چکا ہے جبکہ ادارہ گذشتہ کئی سال سے مالی بے قاعدگیوں کی زد میں ہے۔

نیا دور میڈیا کے پاس موجود انکوائری کمیٹی کی دستاویزات میں واضح کیا گیا ہے کہ ادارے کے CFO نے ستمبر 2016 سے اگست 2017 تک 11183 لیٹر فیول کے لئے فنڈز وصول کیے جو روزانہ کے حساب سے تقریباً 30 لیٹر بنتے ہیں۔ دستاویزات میں واضح کیا گیا ہے کہ سال کے پانچ مہینوں میں CFO نے 5475 لیٹرز فیول وصول کیا۔



یہ بھی پڑھیے: نیلم جہلم پاور پراجیکٹ میں کرپشن، چھ ماہ میں دو کروڑ کا فیول چوری: دستاویزات







دستاویزات کے مطابق ادارے کے CFO نے ستمبر 2017 سے اگست 2018 تک 15,984 لیٹرز فیول وصول کیا ہے جو یومیہ 43.79 لیٹر بنتا ہے۔ دستاویزات میں لکھا گیا ہے کہ جنوری کے مہینے میں 1622 لیٹرز فیول کا فنڈ وصول کیا گیا جو روزانہ کے حساب سے 50.68 لیٹرز بنتے ہیں، اس کے بعد جون کے مہینے میں 1505 لیٹرز فیول کے فنڈز وصول کیے گئے جو روزانہ کے حساب سے 50.16 لیٹرز بنتے ہیں۔



انکوائری کمیٹی کی دستاویزات میں ستمبر 2018 سے اگست 2019 تک کا تخمینہ لگاتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس دوران اس افسر نے 16429 لیٹر فیول استعمال کیا ہے جو کہ یومیہ 45 لیٹر بنتے ہیں۔ متعلقہ افسر نے دسمبر کے مہینے میں سب سے زیادہ 1782 لیٹر فیول استعمال کیا ہے جو روزانہ کے حساب سے 57.48 لیٹر بنتا ہے جبکہ نومبر کے مہینے میں 1673 لیٹر فیول استعمال کیا گیا جو کہ روزانہ کے حساب سے 57.68 لیٹر بنتا ہے۔

ادارے کے CFO نے سالانہ چالیس لاکھ روپے فیول کی مد میں وصول کیے ہیں جو کہ ماہوار تنخوا کے علاوہ (33,3300) بننتے ہیں۔

انکوائری میں لکھا گیا ہے کہ CFO نے تین سال میں اپنی ذاتی گاڑی میں تین بار انجن تبدیل کرنے کے 36 لاکھ روپے وصول کیے۔ دستاویزات میں واضح کیا گیا ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ادارے کے اس افسر نے گاڑی کی مینٹنس کی مد میں کتنا پیسا وصول کیا۔



یہ بھی پڑھیے: ’ریلوے میں ایک ایسے بندے کو سربراہی دی گئی جس پر نیب کے چھ کیسز ہیں‘







انکوائری کمیٹی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے گذشتہ ہفتے ایک جامع رپورٹ بنائی ہے اور اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پراجیکٹ میں چھ مہینے کے دوران دو کروڑ روپے فیول کی کرپشن ہوئی جس میں ادارے کے CFO بھی شامل تفتیش ہیں اور ان کے فیول کا ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے کہ کس طرح انہوں نے فیول کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ فنڈز استعمال کیا۔ انکوائری کے ممبر نے واضح کیا کہ پراجیکٹ کے مقام پر تمام افسران کو رہائش فراہم کی گئی ہے اور متعلقہ افسر بھی وہاں پر رہائش پذیر ہے مگر فیول پھر بھی روزانہ چالیس سے ساٹھ لیٹر استعمال کیا گیا ہے۔ اب یہ وزارت اور تفشیشی اداروں کا کام ہے کہ وہ اس پر ایکشن لیں۔

وزارت آبی وسائل کے ایک اعلیٰ افسر نے نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ہمیں بھی کچھ دستاویزات موصول ہوئی ہیں جس پر ہم آئندہ ہفتے ادارے سے رپورٹ مانگیں گے کہ فیول کی مد میں اتنا پیسا کیسے چوری ہوا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جانچ پڑتال کے بعد کیس کو تفشیشی اداروں کے پاس بیجھا جائے گا۔

نیا دور میڈیا نے مسلسل تین روز تک پراجیکٹ کے CFO سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے جواب دینے کی بجائے نمائندے کو بلاک کر دیا۔ متعلقہ افسر سے دوسرے ذرائع سے بھی رابط کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کا مؤقف معلوم ہو سکے مگر انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا اور فون بند کر دیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔