رشتے نبھانا کس قدر مشکل ہے، ایک دن لڑکیوں کی طرح گزار کر دیکھیں

رشتے نبھانا کس قدر مشکل ہے، ایک دن لڑکیوں کی طرح گزار کر دیکھیں
پاکستانی خواتین کو بمشکل اس بات کا علم ہوتا ہے کہ طلاق کی صورت میں، حق مہر کی مد میں یا ایک سے زائد شادیوں کے حوالے سے ان کے پاس کیا اختیارات ہیں۔ اگرچہ ان تمام چیزوں کی بابت خواتین قانونی حق رکھتی ہیں لیکن اکثر انہیں پتہ نہیں ہوتا یا پھر ان کے سسرال اور حتیٰ کہ ان کے اپنے گھر کے افراد بالخصوص مرد انہیں اس بارے میں کچھ نہ کرنے یا خاموش رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ نکاح نامے کی بعض شقوں کو عورت کی اجازت اور اسے دکھائے بغیر ہی حذف کر دیا جاتا ہے۔ نہ نکاح پڑھانے والا مولوی اس معاملے میں عورت کا ساتھ دیتا ہے اور نہ کوئی اور۔ خواتین کو مردوں کے ہاتھوں یرغمال اسلام کو چھین کر اسلام کے حقیقی قوانین کو رائج کروانا ہوگا۔



معاملہ صرف نکاح یا حق مہر تک محدود نہیں، بلکہ بچے پیدا کرنے کے بارے میں بھی خواتین کی رائے یا تو سرے سے لی ہی نہیں جاتی یا پھر اس رائے کا احترام نہیں کیا جاتا۔ کہ وہ بچے پیدا کرنا چاہتی بھی ہیں یا نہیں؟ اگر چاہتی ہیں تو کتنے بچے؟ اس کے علاوہ وہ خواتین جولڑکا پیدا نہیں کرتیں، ان کی زندگیوں کو بھی جہنم بنا دیا جاتا ہے۔

جو عورت اپنی شادی یا ازدواجی زندگی کے بارے میں آواز اٹھائے، اسے چالاک، تیز اور بیغیرت وغیرہ جیسے طعنے دیے جاتے ہیں۔



ہم لوگ سب سے زیادہ کم عمر شادیاں کرنے، دوران زچگی خواتین اور بچوں کی اموات والے پانچ ممالک میں سے ایک ہیں۔ شادی کے معاملے میں ہمیں اصلاحی اور تعمیری مداخلتوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح سے بنائے گئے رشتے نبھانا اور ان رشتوں میں رہنا کس قدر مشکل ہے، ایک دن لڑکیوں کی طرح سوچ کر یا گزار کر اندازہ کر لیں۔




عائشہ سروری کے ٹوئٹر تھریڈ سے اردو میں ترجہ کیا گیا

مصنفہ Women's Advancement Hub کی بانی ممبران میں سے ہیں۔