پشاور پی ایس ایل اور ماں جیسی ریاست کی مامتا سے محروم کیوں؟

پشاور پی ایس ایل اور ماں جیسی ریاست کی مامتا سے محروم کیوں؟
کرکٹ دیکھنے کا اتنا زیادہ شوقین نہیں ہوں کہ کسی بھی ٹیم کا میچ دیکھ لوں البتہ اگر پاکستان کا کسی غیر ملکی ٹیم کے ساتھ میچ ہو تو پھر پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ دیکھتا ہوں اور پاکستانی باؤلنگ صرف اس لمحے میں دیکھتا ہوں جب میچ بالکل سیریس مرحلے میں ہو۔ اس کے علاوہ غیر ملکیوں کے درمیان ہونے والے میچز تو بالکل نہیں دیکھتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر میچ ہو، چاہے ون ڈے، 20/20 یا ٹیسٹ تو پھر ان دونوں بڑے حریفوں کے درمیان ہر میچ اے ٹو زیڈ ٹی وی سکرین پر بڑے شوق سے دیکھتا ہوں۔ بلکہ صرف میں نہیں برصغیر پاک و ہند میں ان دونوں حریفوں کے درمیان ہر میچ کو دیکھنے کے لئے لوگ بڑے بےتاب ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے دیوانے جو بینک بیلنس سے اچھے ہوں، پہلے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ پاک انڈیا میچ کو اپنی آنکھوں سے سٹیڈیم میں دیکھیں، جو ایک بڑی تفریح سے کم نہیں ہوتا۔

پاکستان میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستانی سٹیڈیمز ویران ہو چکے تھے جس سے غیر ملکی ٹیموں کے پاکستانی دورے بالکل ختم ہو گئے تھے اور وہ ملک جس کا نوجوان کھیلوں سے محبت کرتا ہو وہ نوجوان ذہنی دباؤ اور مختلف نشوں میں مبتلا ہوا۔ کسی بھی ملک کو اپنا نوجوان اثاثہ مختلف نشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے نوجوانوں کے لئے کھیلوں کے میدان آباد کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کھیلوں کے میدان آباد نظر نہیں آتے۔ کھیل ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق بھی پاکستان میں حکومتی سطح پر مخصوص طبقے کے بچوں کے لئے ہوتے ہیں۔



پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) پاکستانی میدانوں کو ہر لحاظ سے آباد کرانے کے لئے ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ پی ایس ایل کی بدولت اور پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی کی پاکستانی قوم سے محبت غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان کھینچ لے آئی۔ جس سے دنیا میں پاکستان کا soft image گیا اور پی ایس ایل کے سیکنڈ ایڈیشن میں پاکستان میں پی ایس ایل کے میچز کھیلنے کے لئے غیر ملکی ٹیموں کے کھلاڑی پاکستان کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے پاکستان آنے کو تیار ہوئے۔ اس طرح پی ایس ایل تھری اور پی ایس ایل فور نے کراچی کے ساتھ لاہور کو بھی روشنی کا شہر بنا دیا جس کی روشنی پاکستان کے کونے کونے تک پہنچی تھی۔

پی ایس ایل five کے شیڈول کو کسی بھائی نے اپنے سپورٹس پیج پر اپلوڈ کیا تھا۔ میری موبائل سکرین پر یہ شیڈول نمودار ہوا تو میں نے سوچا چلو دیکھ لیتے ہیں اس شیڈول میں آخر کیا ہے؟ جب قریب سے ایک دفعہ دیکھ لیا تو پھر دل کی تسکین کے لئے ایک مرتبہ پھر شیڈول کو آہستہ آہستہ اور غور سے دیکھا۔ دوسری مرتبہ دیکھنے کے ساتھ دل تھوڑا ناراض بھی ہوتا رہا اور آخر میں تو دل ہی بیٹھ گیا۔

میں نے جب شیڈول میں دیکھا کہ پھولوں کے شہر پشاور کے سٹیڈیم میں ایک میچ بھی نہیں کھیلا جائے گا تو یقین مانیں، دل ٹوٹ گیا۔ پھر صرف بہانوں سے دل کو جوڑنا شروع کیا کہ پشاور پھولوں کا شہر ہے اور موسم بہار آنے والا ہے، جس میں نئے پھول اگنے ہیں۔ شاید پی ایس ایل انتظامیہ یہ سوچ کر پشاور میں میچ نہیں کروانا چاہتی کہ کہیں غیروں کی نظر ہی نہ لگ جائے۔

پھولوں کا شہر ہو اور وہاں کھیلوں کے میدان ویران ہوں، تو آپ سوچ لیں کہ یہ اس شہر کے ساتھ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ شاید پی سی ایل انتظامیہ میں غیر ملکی پالیسی میکرز موجود ہوں، جن کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان میں کراچی، لاہور، روالپنڈی اور ملتان کے علاوہ پھولوں کے شہر پشاور میں بھی سٹیڈیم ہے اور کرکٹ کے دیوانے وہاں بھی ہیں۔ پشاور تو کیا، بلوچستان کو بھی ہر چیز کی طرح پی ایس ایل میں بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ وہاں بھی پشاور کی طرح پی ایس ایل کا ایک بھی میچ نہیں ہوگا۔



ریاست کو چاہیے کہ پورے پاکستان کو ماں جیسی نظروں سے دیکھے اور ماں جیسی محبت کرے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پھولوں کا شہر ماں (ریاست) کی نظروں میں نہیں؟ ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان صرف کراچی، لاہور، روالپنڈی اور ملتان تک محدود نہیں، بلکہ بہت وسیع ہے۔

پھولوں کے شہر کو مین سکرین پر لانا چاہیے تاکہ یہاں ان تمام منفی سوچوں کو ختم کیا جائے جو اس ماں کو سوتیلا سمجھنے لگی ہیں۔ یہ تمام سوچیں، نظریے تب ختم ہوں گے جب یہاں کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے۔