”دو نہیں ایک پاکستان“ بھٹو شہید کا نعرہ تھا جسے حکمرانوں نے چُرا لیا

”دو نہیں ایک پاکستان“ بھٹو شہید کا نعرہ تھا جسے حکمرانوں نے چُرا لیا
بلاول بھٹو زرداری نے دھابیجی میں نئے 100 ایم جی ڈی واٹر پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے سلیکیٹڈ حکومت کے دو نہیں ایک پاکستان کی عملی صورت پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس پرُفریب نعرے پر بھی کڑی تنقید کی، جس میں سندھ سے سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ دو نہیں ایک پاکستان لیکن اگر ان کی پالیسی دیکھیں تو ایک نہیں دو پاکستان نظر آ رہے ہیں۔ ایک پاکستان میں قانون بھی ایک ہی ہونا چاہیے، پنجاب کا آئی جی فوری تبدیل ہو جاتا ہے لیکن سندھ کے لیے الگ قانون ہے۔ کیا آج تک سندھ ایک کالونی ہے؟ کہ اسے اپنا ہر کام کرنے کے لیئے کسی اور کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔

 پنجاب کا آئی جی تبدیل ہو جاتا ہے اور وزیراعلیٰ کو پتہ ہی نہیں ہوتا، لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو قانون بدل جاتا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کو ایک تاریخی منصوبہ قرار دیا جس سے کراچی  کو 100 ایم جی ڈی پانی زیادہ ملے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی سب سے پہلی ترجیح پانی کےمسائل حل کرنا ہے، دھابیجی پمپ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے پمپس بیرون ملک سے لائے گئے، سندھ حکومت واحد حکومت ہے جس نے سب سے زیادہ پانی کی لائننگ کی ہے، تمام تر سازشوں اور محدود وسائل کے باوجود سندھ کی عوامی حکومت عوام کی خدمت کے لیے کوشاں ہے اور دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ پانی کے مسائل کو حل کرنا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

ملک میں سب سے زیادہ نہروں اور کھالوں کو پختہ کرنے کا کام حکومتِ سندھ نے کیا ہے، جس سے بڑی مقدار میں پانی کے زیاں کو روکنے میں مدد ملی ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ اوسموسس واٹر پلانٹس بھی سندھ میں لگائے گئے ہیں۔ اچھڑو تھر کو پائپ لائن کے ذریعے پانی فراہم ہو رہا ہے، جبکہ لیاری میں قلتِ آب کے سدباب کے لیے منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ بدین اور سجاول کے لوگوں کے پانی کے مسائل حل کریں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق اپنے وعدے کے مطابق پانی فراہم کرے۔

خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت سے شکوہ کیا کہ سندھ حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ وفاق کو سندھ کا حق چھیننے نہیں دیں گے، سندھ حکومت کم وسائل میں زیادہ کام کر رہی ہے، مراد علی شاہ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ دیگر وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں زیادہ کام کر رہے ہیں۔ 

چئیرمین بلاول کی شکایت تھی کہ سلیکٹڈ حکومت کو ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اس دوران وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں کسی ایک ترقیاتی منصوبے کا فیتہ کاٹنے کی تقریب کا انعقاد بھی نہیں ہوا، خان صاحب نے کراچی پہنچ کر وعدہ کیا تھا کہ ڈی سیلینیشن پلانٹ لگوائیں گے، وفاقی حکومت نے ڈی سیلینیشن پلانٹ کے لیے ایک روپے نہیں دیا، ڈی سیلینیشن پلانٹ کے لیے سندھ حکومت کام کر رہی ہے، ہم عوام کی خدمت کا کام جاری رکھیں گے۔

دو نہیں ایک پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شہید ذوالفقار بھٹو کا نعرہ تھا، جسے موجودہ حکمرانوں نے چُرا لیا، لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح حکومت چلائی جارہی ہے لگ رہا ہے ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔

وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور پنجاب کا آئی جی تبدیل ہو جاتا ہے، ایک سال سے سندھ میں امن وامان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے، سندھ ہمارا صوبہ ہے، عوام ہم سے حساب مانگتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پاس ان کی ٹیم ہو گی تو وہ احتساب کرسکیں گے، پولیس اگر اپنا احتساب خود کرے گی تو امن وامان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس ضابطے کے تحت پنجاب کا آئی جی تبدیل ہوتا ہے، اسی کے تحت سندھ کا بھی ہونا چاہیے۔ پولیس کا احتساب فقط ایک منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے، اگر پولیس اپنا احتساب خود کرے گی تو معاملات بہتر نہیں ہوںگے۔

انہوں نے سلیکٹڈ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت عوام دشمن پالیسیاں بنا رہی ہے، گندم بیچنے والے ملک کو گندم خریدنے والا ملک بنا دیا ہے، ملک کے عوام اب معاشی قتل برداشت نہیں کرسکتے، موجودہ حکومت عوام کے لیے عذاب بن گئی ہے، حکومت کا ہرفیصلہ عوام کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ حکومت نے بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے، ایک حکم پر ہزاروں لوگوں کے گھر گرا دئیے جاتے ہیں، انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ عام آدمی کیسے گزارہ کرے گا۔

بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق گیس پر سب سے پہلا حق اس صوبے کا ہے جہاں سے وہ نکلتی ہے، لیکن اِن کی نااہلی کی وجہ سے وفاق کمزور ہو رہا ہے۔ ہم کسی کو دھمکی نہیں دے رہے لیکن انہیں بتا رہے ہیں کہ ہم عوام کے حقوق پر مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر نے اسمبلی کے فلور پر تسلیم کیا تھا کہ سندھ کا پانی چوری ہو رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ بھی ابھی تک حل نہیں کیا گیا، جو کہ سلیکٹڈ حکومت کا معاشی طور قتل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔

پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لئے وفاقیت کے اصولوں کے مطابق ریاست کو چلانا ہو گا، ریاست کی وفاقی اکائیاں جنہوں نے پاکستان کو بنایا ہے، ان کو زیادہ سے زیادہ خود اختیاری دینا ہو گی، ان کے قدرتی وسائل پر حق ملکیت اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ حق حاکمیت کو تسلیم کرنا ہو گا، ان کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہوگا، اسی سے وفاق مضبوط ہو گا۔ کسی بھی صوبے کو یہ شکایت نہیں ہونے دینی چاہیے کہ ریاست اُس کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو صوبے کے عوام میں بیگانگی کا احساس مضبوط ہوتا ہے، آئین کے تحت سب کیلئے ایک سے ضابطے اور اصول ہونے چاہیں، تبھی دو نہیں ایک پاکستان کی سمت ہم آگے بڑھیں گے۔

وفاق کی مداخلت اور تحریک انصاف کی سیاست نے پولیس کو سندھ میں حکمران جماعت کے مدمقابل ایک پارٹی بنا دیا ہے، صوبے کا چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہے، اس کے پاس اور حکمران جماعت کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے، اور وہی عوام کو جوابدہ ہیں، انتظامیہ نے چیف ایگزیکٹو کی سربراہی میں آئینی قانونی فرائض سرانجام دینے ہیں۔ پولیس کا محکمہ سندھ حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، وزیر اعلیٰ منتخب ہوتا ہے اور اس کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ پولیس میں تبدیلی لا سکے۔ لیکن آئی جی سندھ جب وفاقی حکومت کی آشرباد پر وزیر اعلیٰ کی برابری کرنے کی کوشش کرے گا تو مسائل تو پیدا ہوں گے۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے لئے صوبائی حکومت اور پولیس کے درمیان معاملات بہتر رہنے چاہیئیں، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وفاق صوبے میں مداخلت سے باز رہے اور جس ضابطے کے تحت پنجاب میں آئی جی تبدیل ہوتا ہے، اسی ضابطے کے تحت سندھ میں بھی ہو۔