پارٹی ٹکٹیں نہ ملنے پر خواتین آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبور

بلوچستان میں خواتین کی جدوجہد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر جب خواتین ورکرز کو نظرانداز کر کے میرٹ کے برعکس نوابوں، سرداروں اور وڈیروں کی بہنوں، بیٹیوں، بیویوں اور دیگر من پسند افراد کو ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں تو اس سے حقیقی سیاسی کارکنان کا استحصال ہوتا ہے۔

پارٹی ٹکٹیں نہ ملنے پر خواتین آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبور

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کر کے انتخابی نشانات بھی الاٹ کر دیے گئے ہیں، جہاں مرد امیدوار پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، وہیں اکثر خواتین سیاسی کارکنان بھی ٹکٹ نہ ملنے کا شکوہ کر رہی ہیں۔ کوئٹہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دفتر کے باہر پیپلز پارٹی کے خواتین ونگ نے ایک ہفتے تک دھرنا دیا۔ دھرنے میں شامل ثناء درانی، حنا گلزار، محمودہ نسرین، ساجدہ، عابدہ بلوچ و دیگر نے یہ دعویٰ کیا کہ سینیئر کارکنوں کو نظرانداز کر کے من پسند افراد میں ٹکٹ تقسیم کئے گئے ہیں۔

دھرنے میں پیش پیش پاکستان پیپلز پارٹی وومن ونگ بلوچستان کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ثناء درانی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 43 کوئٹہ سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں خواتین کا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا غیرمعمولی اقدام ہے۔

ثناء درانی نے بتایا کہ بلوچستان کو ہمیشہ تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا، سیاسی میدان میں یہ عمل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ خواتین ورکروں کے ساتھ ناانصافی صرف پیپلز پارٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں خواتین کارکنان کو آگے آنے کا موقع نہیں دیتیں۔

ثناء درانی بتاتی ہیں کہ خواتین 10 سے 12 سال تک طویل سیاسی عمل طے کر کے لوگوں کی ذہن سازی کر کے اپنا ووٹ بنک بناتی ہیں۔ بلوچستان میں خواتین کی جدوجہد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر جب عملی میدان میں خواتین کو نظرانداز کر کے میرٹ کے برعکس نوابوں، سرداروں اور وڈیروں کی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں اور من پسند افراد کو ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں تو اس سے حقیقی سیاسی کارکنان کا استحصال ہوتا ہے۔

بلوچستان کی خواتین کی مرکز تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے

ثناء درانی نے بتایا کہ 'صوبائی قائدین خواتین کو مرکز تک پہنچنے نہیں دیتے اور انہیں پیچھے دھکیلا جاتا ہے۔ مردوں کو خوف ہے کہ محنتی اور سیاسی وژن رکھنے والی خواتین مردوں کی جگہ نہ لے لیں۔ وہ خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں اس لیے انہیں آگے نہیں آنے دیتے'۔ بلوچستان کی خواتین کا احتجاج پارٹی میں جمہوری عمل کو پامال کرنے کے خلاف تھا۔ جب کوئی ورکر غلطی کرے تو ڈسپلن کی بات کی جاتی ہے مگر 20 سالوں سے خدمت کرنے والی خواتین کو سائیڈلائن کر کے چند روز قبل پارٹی میں شامل ہونے والے لوگوں کو ترجیحی لسٹ میں شامل کرتے وقت کسی کو پارٹی ڈسپلن یاد نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے بلوچستان کی خواتین کے ساتھ ہمیشہ سے ناانصافی ہوتی رہی ہے۔

ان الزامات کو ہم نے پیپلز پارٹی کے صوبائی ترجمان سربلند خان جوگیزئی کے سامنے رکھا، فون کال اور واٹس ایپ پر بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے فون منقطع کر دیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی 51 نشستوں کیلئے 1248 مرد جبکہ صرف 38 خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بلوچستان اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق 1976، 1990، 1993 اور 1997 میں بلوچستان سے کوئی خاتون صوبائی اسمبلی تک نہیں پہنچ پائی۔ تاہم الیکشن ایکٹ 2002 کے تحت خواتین کو اسمبلی میں 17 فیصد نمائندگی ملی۔ 1972 کی صوبائی اسمبلی میں فضیلہ عالیانی نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئیں۔ 1988 میں بیگم حاکم لچمن داس بلوچستان نیشنل الائنس کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئیں۔ اسی طرح رضیہ رب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں جبکہ فضیلہ عالیانی، پری گل آغا آزاد حیثیت سے ایم پی اے بنیں۔ ان خواتین کا تعلق بااثر اور مستحکم سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے گھرانوں سے بتایا جاتا ہے۔

مرکزی قیادت نے ہماری باتوں کوسنا اور نہ حق تلفیاں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی

ثناء درانی نے بتایا کہ خواتین ونگ کی مرکزی صدر فریال تالپور کے ساتھ کھل کر تحفظات کا اظہار کیا مگر انہوں نے ہماری باتوں کو غور سے سنا اور نہ حق تلفیوں کا خاتمہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ پارٹی کی جانب سے اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جس کے بعد میں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ کے شعبہ سیاسیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر حسن آراء مگسی سمجھتی ہیں کہ پدرشاہی معاشرے میں خواتین کی نمائندگی کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ سیاسی طور پر مستحکم گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ اکثر مردوں سے یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ خواتین ٹکٹ کو ضائع کرتی ہیں اس لیے خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور صرف مخصوص سیٹوں تک انہیں محدود رکھا جاتا ہے۔ اگر خانہ پوری کیلئے سیاسی جماعتیں خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کر بھی دیں تو انہیں ایسے حلقوں پر الیکشن لڑنے کا کہا جاتا ہے جہاں ان کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں خواتین کے اقتدارمیں آنے سے خائف ہیں

حسن آراء مگسی کہتی ہیں کہ اکثر سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی بات تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں خواتین کو برابری کی بنیاد پر کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح بلوچستان میں برسراقتدار بلوچستان عوامی پارٹی نے کسی خاتون کو صوبائی وزارت کا قلمدان نہیں سونپا، اگر دیکھا جائے تو ان کے منشور میں خواتین کی ترقی کی بات کی گئی تھی۔ اکثر سیاسی حلقوں میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ خاتون وزیر صرف عورتوں کے مسائل پر بات کرے گی اور ان کی کارکردگی مردوں کی طرح اچھی نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں سماجی و ثقافتی اقدار کے نام پر خواتین کی نمائندگی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ حسن آراء مگسی سمجھتی ہیں کہ معاملات بہتر ہو رہے ہیں مگر خواتین کو اپنے حقوق کیلئے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت کیسے بڑھائی جا سکتی ہے؟

حسن آراء مگسی نے بتایا کہ خواتین کل آبادی کا 49.56 فیصد بنتی ہیں، اتنی بڑی آبادی کو سیاسی عمل سے باہر رکھنا یا مناسب نمائندگی نہ دینا ایک لحاظ سے اکثریت کے فیصلے کو مسترد کرنے کے مترادف ہے اور جمہوریت میں اکثریت کو اہمیت دی جاتی ہے۔

انہوں نے تجویز دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں خواتین سے متعلق مؤثر قانون سازی کر کے خواتین کو ہر شعبے میں موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت مؤثر بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کر کے خواتین کا کوٹہ بڑھانا ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے گراس روٹ لیول سے خواتین کو جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا موقع دیں، جب تک خواتین سیاسی عمل میں نہیں آئیں گی ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس ضمن میں لیڈرشپ سٹریم لائن پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد ہمیں دیگر سرگرم خواتین رہنماؤں کو تیار کرنا ہو گا تا کہ وہ اسمبلیوں میں جا کرعوام اور بالخصوص خواتین کی بھرپور نمائندگی کر سکیں۔

سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار خالق رند بتاتے ہیں کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اکثر خواتین سیاسی کارکنان کو نظرانداز کرنے کی شکایتیں سامنے آئی ہیں، تاہم دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان کی قومی سیاسی جماعتوں نے خواتین کو میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹیں فراہم کی ہیں۔ اس کی ایک مثال بی این پی نے گذشتہ دور میں اپنی پارٹی کی دو خواتین ورکرز کو ٹکٹیں دیں۔ اسی طرح نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی 2013 کے انتخابات میں میرٹ کی بنیاد پر خواتین ورکرز کو ٹکٹ دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط نہیں کر پائیں جس طرح صوبے کی قومی جماعتوں نے کی ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں الیکٹ ایبلز پر انحصار کرتی ہیں اور ان کے کچھ مطالبات ہوتے ہیں جہاں پر ان کا اتفاق ہوتا ہے وہیں سے اراکین منتخب ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں آبادی کے لحاظ سے خواتین مردوں کے برابر ہیں۔ ملکی سطح پر کسی بڑی سیاسی جماعت نے خواتین کو اہمیت نہیں دی۔ یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ 33 فیصد کوٹہ پورا کرنے کیلئے خواتین کو لاتے ہیں۔ یہ کہیں بھی نہیں دیکھا گیا کہ قومی یا ریجنل جماعتوں نے خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹیں دی ہوں۔ جب تک اسمبلی میں سیٹیں پر کرنے کی سوچ ختم نہیں ہوتی، خواتین کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

یحییٰ ریکی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے اور وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ یحییٰ ریکی نوجوانوں اور خواتین کے مسائل، تعلیم وصحت، بیروزگاری، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ودیگر موضوعات پر اردو اور انگلش میں کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔