یہ بات تو طے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد جس شدت سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف پنجاب میں کریک ڈاؤن جاری رہا، خیبر پختونخوا میں پرتشدد واقعات زیادہ ہونے کے باوجود سابق حکمران جماعت کے ساتھ نرمی برتی گئی۔ پنجاب میں تو عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والے بڑے ناموں نے جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی نامی نئی سیاسی جماعت تشکیل دے دی مگر خیبر پختونخوا میں کچھ دن قبل تک اس حوالے سے خاموشی دیکھی گئی۔
اس دوران خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہاں مرکز کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل نگران حکومت تشکیل دی گئی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ دیا گیا اور گورنرشپ جے یو آئی (ف) کو دی گئی مگر نگران حکومت میں شامل جماعت اے این پی کے 'بعض معاملات' پر جے یو آئی (ف) کے گورنر سے اختلافات شدت اختیار ہونے کے سبب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو میڈیا کے سامنے گھسیٹتی رہیں۔
ایسی صورت حال میں پنجاب میں جہانگیر ترین والا کام پرویز خٹک کو سونپا گیا جو صوبے کی سیاست کے داؤ پیچ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ پرویز خٹک کے سامنے مسلم لیگ (نواز)ِ، پی پی پی اور اے این پی سمیت ہر جماعت نے ساتھیوں سمیت قبول کرنے کی پیش کش موجود ہے مگر ملکی اور صوبے کی سیاست کا مزاج سمھجھنے والے پرویز خٹک کو یہ معلوم ہے کہ آئندہ انتخابات میں صوبے میں نہ ہی 2002 والا متحدہ مجلس عمل کا طوفان ہو گا، نہ ہی 2008 والی اے این پی کی ہوا ہو گی اور نہ ہی 2013 اور 2018 والا پی ٹی آئی کا سونامی ہوگا بلکہ جو بھی حکومت بنے گی وہ مخلوط بنے گی۔
اسی لئے پرویز خٹک نے استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے صوبے کی سطح پر پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے نام سے ایک نیا گروہ تشکیل دیا جس میں ان کا خیال ہے کہ اگر وہ 20 کے قریب ایم پی ایز منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ دوبارہ صوبے کی سیاست میں ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر سامنے آئیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ دن قبل انہوں نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کے 50 سے زائد سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کواکٹھا کر کے اپنے آپ کو صوبے کی سیاست کا ایک اہم کردار ظاہر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کچھ اراکین تو ایسے بھی تھے جنہیں کچھ دن قبل گرفتار کیا گیا تھا اورعدالت لے جانے کے بجائے پشاور میں منعقدہ پرویز خٹک کی نئی جماعت میں شامل کرنے والی تقریب میں پہنچایا گیا مگر ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اجلاس میں شریک ہونے والے کئی اراکین نے کچھ گھنٹوں بعد ہی پرویز خٹک کی جماعت سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا جس کی وجہ ان کے حلقوں میں پی ٹی آئی کے حامی نوجوان ووٹروں کا غم و غصہ بتایا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت اے این پی ہی واحد جماعت ہے جس نے تقریباً صوبے سے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی 95 فیصد نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ باقی جماعتیں تا حال میدان میں تیار نظر نہیں آ رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ صوبے کی سیاست میں نئے اتحادی کون ہوں گے اور کون کس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گا؟ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے سب سے بڑا چیلنچ یہ ہو گا کہ وہ صوبے میں 18 سے 35 سال والے نوجوانوں کو انتخابات میں اپنی جانب کیسے راغب کریں گی۔
خیال ہے کہ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 60 لاکھ 66 ہزار ہے جس میں سے 18 سے 35 سال والے ووٹرز 5 کروڑ 61 لاکھ 96 ہزار ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی ان نوجوان ووٹروں کو اپنی جانب راغب کر کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی مگر 9 مئی کے واقعات کے بعد کیا پی ٹی آئی کو انتخابات میں آزادنہ حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی اور اگر ریاست کی جانب سے انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا گیا تو یہ نوجوان ووٹرز کس طرف جائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔
حسن زیب بونیری سیاسی کارکن اور تجزیہ کار ہیں۔ وہ سیاسی تحریکوں اور انتخابات کے مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے پاپولیشن سائنسز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔