روایت ضرور ہے کہ متعلقہ چیف جسٹس سے پوچھے بنا کسی عدالت کے جج کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن قانون میں ایسی کوئی شرط نہیں لکھی ہوئی۔ عالمی میڈیا میں جو بیانیہ چل رہا ہے اس کا جواب دینا حکومت وقت، صحافیوں اور دانش وروں کی ذمہ داری ہے۔ آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن محض حقائق اکٹھے کرے گا اور اس کی رپورٹ کی بنیاد پہ فیصلہ ہوگا کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس کمیشن سے موجودہ سیاسی تنازعہ حل کی طرف نہیں جا رہا بلکہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا ہے ماہر قانون احمد حسن شاہ کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے صحافی کامران یوسف نے کہا کہ عمران خان سے سوال بنتا ہے کہ اگر جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹانے کی یہ وجہ نہیں تھی تو انہیں اس کی تردید کرنے میں اتنا عرصہ کیوں لگ گیا؟ ملک میں آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے اور ان کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ان نکات پر بھی جوڈیشل کمیشن کو تحقیقات کرنی چاہئیں۔ حکومت بہت محتاظ انداز میں کھیل رہی ہے اور وہ اس طرف نہیں جانا چاہ رہی جو ہمارے ملک کی اصل ریڈ لائن ہے۔
رپورٹر حسن ایوب نے کہا کہ آڈیو لیکس کمیشن کے سامنے اگر کوئی مجرمانہ کارروائی آتی ہے تو پھر یہ معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کیا جائے گا۔ چیف جسٹس کے لئے اس معاملے کو اٹھانا اتنا آسان نہیں ہوگا لیکن وہ اس پہ نوٹس لے کر بنچ بنا بھی سکتے ہیں۔ کمیشن ان لوگوں کو بھاگنے نہیں دے گا وہ ان سب کو بلائے گا جن کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو آج کل ملٹری کورٹس پہ بہت اعتراض ہے، یہ وہی ملٹری کورٹس ہیں جو 1952 سے قائم ہیں اور عمران خان کے دور میں کئی لوگوں پر مقدمے انہی میں چلائے گئے تھے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔