ایران و پاکستان کے مابین تعلقات یا کشیدگی کی وجہ اکثر بلوچستان کی یہ سرحد رہی ہے جہاں ماضی میں کئی بار بلوچ علیدگی پسندوں کے خلاف دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی کارروائیاں بھی کی ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ الزام رہا ہے کہ ان کے فوجی و اعلیٰ سرکاری اہلکاروں پر حملہ آور سنّی شدت پسند پاکستان سے آتے ہیں جہاں ان کے ٹرینگ کیمپ موجود ہیں جب کہ پاکستان یہ الزام لگاتا ہے کہ بلوچ علیدگی پسند جنگجو ایران و افغانستان سے آتے ہیں۔
سرحد کے دونوں پار بلوچ آباد ہیں مگر دونوں ممالک کے سرحدی معاملات اور خارجی امور میں بلوچوں کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے جب کہ صوبائی اور ضلعی سطحوں پر ماسوائے چند ایام کی راہداری دینے کے تجارتی اور سرحدی معاملات کے فیصلے سے متعلق اکثر عوامی نمائندگان شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان سب معاملات کے باوجود اس وقت سرحد کے دونوں پار یعنی ایرانی و پاکستانی بلوچستان کی بلوچ قوم پرست قیادت اور عوام میں ایک معاملے میں مشترکہ خدشات کا سامنا ہے جس پر عوامی حلقوں میں خاصی تشویش اور ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ ہے سرحد کے دونوں اطراف بلوچستان کی تقسیم سے متعلق۔
پاکستانی وفاقی حکومت اور ان کے کئی وزیر گذشتہ کئی ایام سے جنوبی بلوچستان کا ذکر کرتے نظر آ رہے تھے جس پر قوم پرست اور بلوچ صحافتی حلقوں میں بلوچستان کی انتظامی تقسیم پر بحث جڑ گئی ہے کہ وفاق بلوچستان کو تقسیم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس سے پہلے بلوچستان کے ساحل سے متعلق اسلام آباد میں بلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی باتیں کی گئیں جس کے مطابق ساحل پر براہ راست وفاق کا اثر و رسوخ ہوگا اور اس سے بھی پہلے گوادر کو خصوصی معاشی ضلع بنانے کی باتیں کی گئیں اور اب جزیروں سے متعلق نیا متنازع بل کا سامنے آنا۔ ان تمام تر واقعات کو بلوچ دانشور صحافتی حلقے بلوچستان کی تقسیم کے طریقے سمجھتے ہیں۔ تاہم بلوچستان کی صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدئی نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ جنوبی بلوچستان کا مقصد ایک نیا صوبہ ہے بلکہ ان کے مطابق یہ بلوچستان کے نو جنوبی اضلاع کے لئے ایک ترقیاتی پیکج ہے۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وفاقی وزرا کے ہمراہ تربت کا دورہ کرتے ہوئے باقاعدہ 600 بلین روپے کا جنوبی بلوچستان پیکج کا اعلان کیا اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے گوادر کا بھی دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد اکثر صوبائی اور وفاقی وزرا اپنے بیانات میں بار بار جنوبی بلوچستان کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس کے رد عمل میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپنے ٹوئیٹ میں کہتے ہیں کہ ’’ہمیں لفظ ’جنوبی‘ سے نفرت ہونے لگی ہے، ہم رابطے کی زبان میں کہنا چاہتے ہیں تاکہ سب کی سمجھ میں آئے، صرف بلوچستان اور اگر کوئی شخص کہتا ہے غرب، شرق، شمال، جنوب، ہم اس کی پُر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ہمیں لفظ جنوب سے سازش کی بُو آ رہی ہے‘‘۔
جہاں جنوبی بلوچستان کو لے کر پاکستانی بلوچستان میں عوام اور قوم پرست قیادت کو بلوچستان کی تقسیم سے متعلق خدشات اور ناراضگیاں ہیں وہیں سرحد کے اس پار ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان سے متعلق بھی تقسیم کی خبریں آ رہی ہیں۔ تہران سے خبر ہے کہ گذشتہ دنوں اسلامی مجلس شوریٰ کے ایک رکن سید محسن دنیوی نے تقسیم سیستان و بلوچستان سے متعلق قرارداد پیش کی جس پر اگر ایرانی صدر دستخط کریں تو باقاعدہ اس پر عمل درآمد ہوگا۔
ایرانی بلوچستان کو انتظامی بنیادوں پر مزید چار صوبوں میں تقسیم کیے جانے کی سفارش کی گئی ہے جس کے مطابق اس وقت صوبائی دارالحکومت زاہدان کو ایک الگ صوبہ بنایا جائے گا اور اس کے علاوہ باقی تین صوبے سیستان، مکران اور بلوچستان کے نام سے بنیں گے۔ اس سے پہلے 2017 کو بھی ایرانی بلوچستان کو تقسیم کرنے سے متعلق زاہدان کے ایک مقامی اخبار میں ایک آرٹیکل شائع کیا گیا تھا جس پر بلوچ نمائندگان نے تنقید کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔
واضح رہے کہ سرحد کے دونوں اطراف بلوچستان کو مزید انتظامی بنیادوں پر تقسیم ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اپنے انتظامی اور اندرونی معاملات میں دونوں ممالک اقدامات کرنے میں خودمختار ہیں لیکن جواد ظریف کے دورہ پاکستان کو ایرانی میڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد سرحدی معاملات و انتظامات پر گفتگو کرنے سے متعلق نمایاں اہمیت دی۔
ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے بعد پاکستانی بلوچستان کے سرحدی ضلع کیچ کے شہر تربت میں ایران کو انتہائی مطلوب جیش العدل نامی سنّی شدت پسند تنظیم کے اہم شخصیت ملا عمر ایرانی کو پولیس کی فائرنگ سے قتل کیا گیا جو خبروں کے مطابق گذشتہ ایک دہائی سے کیچ میں رہائش پذیر تھے۔ اس واقعہ کو جواد ظریف کے دورے سے متعلق بھی جوڑا جا رہا ہے لیکن اس سے ایران کے اس بیانیے کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں ایران کو مطلوب شدت پسندوں کی موجودگی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا مگر اب بدلے میں ایران پاکستان کو کیا دے گا؟ یا پاکستان کی طرف سے کیا مطالبات کیے گئے ہوں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ پاکستان بھی الزام لگاتا رہا ہے کہ ایران میں بلوچ علیدگی پسند باز تنظیمیں اور ان کے نیٹ ورکس موجود ہیں۔
سرحد کے دونوں پار بلوچستان کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنا دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے امور کا حصہ بھی ہے یا صرف ایک خام خیالی، لیکن اس وقت یہ ایران و پاکستان میں آباد بلوچوں کے لئے یکساں خدشات کا ایک موضوع ہے۔