اگر تردید، جھوٹ اور یوٹرن کا اولمپکس ہوتا تو ہم اس کے بلا مقابلہ فاتح ہوتے۔ کورونا صاحب نے دنیا ہلا دی۔ ہم کہتے رہے اجی سب بکواس ہے۔ کوئی کورونا شورونا نہیں ہے۔ سب دشمنوں کی سازشیں ہیں۔ ابھی یہ حضرت چین میں آرام فرما رہے ہیں اور اسلام آباد ہنوز دوراست۔ اور ہم نے تو کورونا کو ویزہ ہی نہیں دینا۔ کیسے آئے گا ادھر؟
دنیا تبلیغ کرتی رہی سماجی فاصلے کی۔ ہمارے مفتی نعیم تبلیغ کرتے رہے اسلامی مصافحے و معانقے کی۔ کورونا کا شکار ہو کر اگلے جہاں پہنچ گئے۔ سیاست دان بھلے قانون سازی نہ کرے پر بھانڈ بازی سے کیسے باز رہے۔ تو ہماری ماحولیات کی وزیر زرتاج گل فرماتی ہیں کہ کووڈ 19 دراصل وہ 19 نکات ہیں جن کا اطلاق کسی بھی ملک پر کسی بھی حالت میں ہو سکتا ہے۔ صدقے اس جاہل اینکر پر جو ان کی بات پر سر ہلاتا رہا۔
ہماری وزیر صحت یاسمین گل نے اسپرین کی گولی میں کورونا کا علاج دریافت کیا اور مولویوں نے تعویذوں میں۔ الحمدللہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کوئی 17 لاکھ غازی اس صیہونی دشمن سے مختلف ہسپتالوں میں نبرد آزما ہیں اور قریب 37 ہزار جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
مگر پولیو کے بارے میں ہم ابھی تلک متفق ہیں کہ یہ اسلام دشمن سازش ہے۔ ہمیں خصی کرنے کی تا کہ ہم مجاہدین کاشت کرنے کے قابل نہ رہیں۔ یہ بات ہمیں شدومد سے مولانا ریڈیو جس کی ایک ٹانگ پولیو کی برکات کے طفیل ضائع ہو چکی تھی، بتایا کرتا تھا۔ ہم نے بھی اس کی تعلیمات پر بھرپور عمل کیا اور ہر اس مرد و عورت کو قتل کیا جو پولیو کی مہمات کے دوران بچوں کو قطرے پلانے کا گنہگار پایا گیا۔ یہ جہاد آج بھی جاری ہے۔ اس کے بعد ہم اسے سماجی برائیوں پر چھوڑیں گے!
آج کل تردید کا نیا میچ چل رہا ہے۔ دشمن نے اڑا دی کہ سوات، باجوڑ، وانا، لکی مروت اور دیگر قبائلی علاقوں میں طالبان پھر سے آباد ہو چکے ہیں۔ بھتے لئے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان ایسے فاؤل عام ہو چکے ہیں۔ مگر ریفری ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کوئی طالبان سرے سے ہیں ہی نہیں! سب دشمنوں کا پراپیگنڈہ ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حالانکہ کل کی بات ہے کہ اگست 8 کو طالبان نے چھپرال پولیس سٹیشن (مٹہ) پر چڑھائی کر دی۔ پولیس کا ڈی ایس پی اور چند سپاہی یرغمال بنا لئے۔ ان کی مدد کے لئے میجر احسن جو علاقے میں گشت کر رہے تھے، اپنے ساتھیوں کیساتھ پہنچے۔ طالبان نے انہیں بھی یرغمال بنا لیا۔ ڈی ایس پی کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔ مگر ریفری یہی کہتے رہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ خدا غارت کرے اس اینڈرائیڈ فون کو اور آگ لگے اس ناس پیٹے سوشل میڈیا کو جنہوں نے اس واقعے کی پوری وڈیو بنا کر ساری دنیا کے سامنے پیش کردی۔ ہم سب نے دیکھا کہ زخمی ڈی ایس پی لیٹا ہوا ہے اور میجر احسن کے ہاتھ پیچھے سے بندھے ہوئے ہیں۔
لیکن زبان شیریں تو ملک گیری کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم نے جرگہ کیا اور طالبان کو مجبور کر دیا کہ ان سب کو رہا کر دیں۔ طالبان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔ الٹا ان لوگوں پر غداری کے مقدمے ضرور قائم کئے جنہوں نے طالبان کی واپسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر کے معاشرے میں انتشار پھیلایا تھا۔
تردید کا ایک میچ ہمیں بہت بھاری پڑا لیکن شکست دشمن کی ہی ہوئی۔ دشمن یہ پراپیگنڈہ کرتا رہا کہ ہم بنگالیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ان کے حقوق نہیں دیتے۔ ان کے وسائل پر بلوچستان کی طرح قابض ہیں۔ یہ احساس محرومی اس درجے پروان چڑھا کہ 23 برس کے اندر اندر مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ پر ہمیں آخری لمحے تک یہی بتایا جاتا رہا کہ پاک فوج بہادری سے لڑ رہی ہے اور خون کے آخری قطرے تک لڑے گی۔ جبکہ جنرل نیازی (پاٹے خان والا نہیں بلکہ امیر عبداللہ خان) جگجیت سنگھ (غزل والا نہیں بلکہ بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ) کے سامنے ہتھیار ڈال رہا تھا۔ لیکن پھر بھی فتح ہماری ہی ہوئی۔ دنیا کے نقشے پر ہم نے ایک اور اسلامی ملک یعنی بنگلہ دیش کا اضافہ کیا۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔
17 نومبر 2022 کو دہشت گردی کے دو اور حملے ہوئے۔ ایک باجوڑ میں۔ دوسرا لکی مروت میں۔ 6 پولیس والے اور 2 فوجی جوان شہید ہوئے۔ قوم سوگوار نہ ہوئی کیونکہ لانگ مارچ اور آرمی چیف کی تعیناتی جیسے بہت اہم کاموں میں مصروف تھی۔
65 کا تاریخی جھوٹ ہم اپنے بچوں کو مطالعہ پاکستان میں آج تک پڑھا رہے ہیں۔ یہی جھوٹ میں نے بھی اپنے بچپن میں قریب 45 برس پہلے پڑھا اور اب یہی جھوٹ میرے بچے پڑھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اگر سچ لکھا تو پرچے میں فیل قرار دیے جائیں گے۔ وہ جھوٹ یہ ہے کہ ہم سب میٹھی نیند سو رہے تھے کہ بزدل بھارت نے ہم پر حملہ کر دیا۔ لیکن ہماری فوج تو جاگ رہی تھی۔ بس دانت کھٹے کر دیے اس کے۔ کشمیر لینے کے لئے جو حماقت آپریشن جبرالٹر کی صورت میں ہم نے کی اس کا ذکر کسی درسی کتاب میں نہیں ملتا۔ خیر میں نے بچوں کو سب کچھ بتا دیا ہے اس نصیحت کے ساتھ کہ پرچے میں جبرالٹر کا 'مراثی کی دھوتی' کی طرح ذکر ہی کوئی نہیں کرنا! ہمارے دریا تو بھارت نے دھوکے سے بذریعہ معاہدہ شملہ حاصل کر لئے۔ (ویسے اب ہم اسے منسوخ کرانے کا سوچ رہے ہیں!) جب جب کشمیر آزاد کروانے کے لئے جبرالٹر یا کارگل بپا کیا، منہ ہی کی کھائی مگر تردید کرنے کی باکمال صلاحیت اور جھوٹ گھڑنے کا ملکہ بچا لے گیا! لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کشمیریوں کو بھول گئے ہیں۔ ضرور آزاد کرائیں گے لیکن پہلے ذرا آبپارہ کی سڑک کا قبضہ لے لیں لال مسجد والوں سے پھر اگلی منزل کشمیر ہی ہے!
سب نے سمجھایا کہ مت پالو طالبان کو۔ یہ سانپ ہیں پلٹ کر تمہیں ہی ڈسیں گے اور ڈسا بھی۔ جی ایچ کیو پر حملہ کیا۔ کوئی نیول اور ایئر بیس نہ چھوڑا۔ آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے معصوم بچوں کو شہید کیا۔ فوجیوں نے ڈر کے مارے سرعام وردی پہننا چھوڑ دیا۔ ہمارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی جو اب بہت بڑے دانش ور بنے پھرتے ہیں، نے فرمایا کہ یہ کولیٹرل ڈیمج ہے۔ یعنی فکر دی کوئی گل نہیں۔ تھوڑی بہت قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے۔ انہی طالبانوں نے فوجیوں کو ذبح کر کے ان کے سروں سے فٹبال کھیلا۔ لیکن ہماری آنکھیں ابھی تک بند ہیں۔ ہر مسئلے کا حل مذاکرات سو ہم ابھی تلک جرگے ہی کر رہے ہیں۔ خدا معلوم کتنے سانحے اور دیکھنے پڑیں گے آنکھ کھلنے تلک!
کاش آج کل میں کسی طالبان کی نظر کسی بھی چینی مساج پارلر پر پڑ جائے تو ہمارا یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ شاید یہ جملہ نوجوانوں کی سمجھ میں نہ آئے۔ جب طالبان پورے ملک پر قابض ہو چکے تھے تب بھی ہم تردید ہی کر رہے تھے جیسے آج کر رہے ہیں۔ لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ نہ بھئی نہ، اسلام آباد ہنوز دور است۔ لیکن وہ اسلام آباد ہی میں موجود تھے لال مسجد کی شکل میں۔
2007 میں لال مسجد کے مجاہدین اسلام آباد کو فحاشی کے اڈوں سے پاک کرنے کی غرض سے چینی مساج پارلر میں گھس گئے تھے۔ چین نے شکایت کی۔ مشرف نے کمانڈو ایکشن کروایا۔ لال مسجد کا امام مولانا عبدالعزیز برقعے میں فرار ہوتے وقت پکڑا گیا اور اسی حالت میں پی ٹی وی نے اس کا انٹرویو بھی کر ڈالا۔ برانڈڈ برقعہ تھا! پھر اس کے بعد ملک میں آئے روز کہیں نہ کہیں خود کش حملوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جسے پہلے پہل تو جرگوں سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر آپریشن کرنا پڑا اور کافی حد تک فتنہ طالبان کو کنٹرول کر لیا گیا جو اب دوبارہ سر اٹھا چکا ہے۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ فتنہ بس ایک چینی مساج پارلر کی مار ہے!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔