پاکستان میں ہر کچھ عرصے کے بعد مارشل لا کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اب یا تو عوام جمہوریت اور سیاسی افراد سے بور ہو جاتے ہیں یا پھر مارشل لا اتنے تواتر کے ساتھ لگے ہیں کہ اب وہ سسٹم کا حصہ لگنے لگے ہیں۔ مگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو یوں کھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں مارشل لا عوام کی مرضی سے نہیں لگائے جاتے۔ عوام کی تو صرف مارشل لا کو قبول کرنے کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے یا پھر ان کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ تاریخ کا مزید باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں مارشل لا پاکستان کی فوج بھی نہیں لگاتی۔ تو پھر وہ کون سی قوت ہے جو پاکستان میں مارشل لا لگواتی ہے؟
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر اندرونی حالات میں قومی سطح پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔ پاکستانی ریاست علاقائی، صوبائی اور مذہبی گروہ بندیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہم انگریزوں اور ہندوؤں سے ایک الگ ملک حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے مگر ایک واضح قومی تشخص تشکیل دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس اندرونی خلفشار کی بدولت ہم بیرونی سطح پر ایک مربوط اور مضبوط قوم کے طور پر اپنی شناخت نہ بنا سکے۔ ان اندرونی تنازعات کے ساتھ ہمارے ملک کی سرحدوں کے سکیورٹی کے مسائل نے ہمارے مسائل میں بے پناہ اضافہ کر رکھا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے پاکستان میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اور حالات کو سنبھالنے کے لئے ایک طاقت جس نے یہ بیڑا اٹھا رکھا ہے وہ پاکستان کی فوج ہے۔
آزادی سے لے کر اب تک کے 75 سالوں میں ہر مشکل وقت میں عوام بے ساختہ فوج کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر کوئی قدرتی آفت آ جائے تو فوج، سیاسی حالات خراب ہو جائیں تو فوج، الیکشن کروانے ہوں تو فوج، حتیٰ کہ بھل صفائی بھی کروانی ہو تو فوج کو لایا جاتا ہے۔ اب تو فوج کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ اگر کسی حکمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی ہو تو فوج اور تحریک عدم اعتماد کو روکنا ہو تو بھی فوج۔ پچھلے ہفتے سندھ حکومت کے پاس صحت کے عملے کی کمی واقع ہوئی تو صوبائی حکومت نے پاک فوج سے درخواست کی کہ ان کو ڈاکٹر اور صحت کا دیگر عملہ مہیا کیا جائے۔ دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو فوج نے برگد کے درخت کی طرح پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اپنے سائے میں لپیٹ رکھا ہے۔
بالکل اسی طرح عالمی طاقتوں نے جب کبھی پاکستان سے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو ان کی نظر بھی صرف ایک طاقت کی طرف اٹھتی ہے اور وہ ہے پاکستان کی فوج۔ جس طرح سے پاکستان کے اندر ہر طاقت کو پاک فوج کی طاقت نے اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح دنیا کی ساری طاقتوں کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طاقت نے اپنی بالادستی کے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی فوج کے سٹیٹس کے حساب سے یہ فطری عمل ہے کہ دونوں طاقتوں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہو۔ ان دونوں طاقتوں نے بڑے بڑے مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان دونوں طاقتوں کے اتحاد نے دنیا میں بڑے بے مثال کام کیے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو شکست دینے اور ان کا شیرازہ بکھیرنے کے ساتھ ساتھ خطوں کی جغرافیائی حد بندیوں اور محل وقوع کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ اس منظرنامے میں جو بات سوچنے پہ مجبور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی امریکہ نے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا کام سرانجام دینا ہوتا ہے تو پاکستان میں ہمیشہ فوج کی حکومت کیوں ہوتی ہے یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا کیوں ہوتا ہے؟ یہ کیا محض حسن اتفاق ہے یا پھر سوچی سمجھی منصوبہ بندی؟
پاکستان کے عوام کو یہ بات برداشت ہو یا نہ ہو مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1947 سے ہی پاکستان امریکہ کے پلے پڑ گیا تھا یا پھر یوں بھی کہا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے پلے پڑ گیا تھا مگر یہ حقیت کم اور دل کو بہلانے کا خیال زیادہ لگتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ عبدالستار نے اپنی کتاب 'پاکستان کی خارجہ پالیسی' میں لکھا ہے کہ پاکستان 1947 سے اس کوشش میں تھا کہ امریکہ سے کسی طرح امداد حاصل کرے، اس سلسلے میں کئی دفعہ پاکستانی خارجہ امور کا وفد امریکیوں سے ملتا اور ان سے التجا کرتا کہ 'کجھ ساڈے بارے وی سوچو'۔ مگر امریکہ کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ پاکستان کو کس خدمت کے بدلے امداد دی جائے یا امداد کے عوض پاکستان سے کیا کام لیا جائے؟ پاکستان کی مسلسل اور انتھک کوششوں کے بعد 1953 میں صدر آئزن ہاور کی حکومت نے پاکستان کو کچھ امداد یہ سوچ کر دی کی کہ 'تہاڈے بارے وی سوچ لیندے آں۔'
پاکستان 1958 تک سیاست کے نام پر مچھلی منڈی بنا رہا، کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ یہ دور انتہائی سیاسی ابتری کا تھا۔ ادھر سے عالمی سیاست میں سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ امریکہ کو سنٹرل ایشیا میں سوویت یونین کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کے لئے ایسی دوست ریاست کی ضرورت تھی جہاں سے بیٹھ کر سوویت رشیا کی سنٹرل ایشیا کی ریاستوں پر نظر رکھی جا سکتی ہو۔
آخرکار پاکستان پہلی دفعہ امریکہ کو بھا گیا۔ امریکہ نے دیکھا کہ اس ملک میں اگر کوئی 'کام کا بندا' ہے تووہ فوج ہی ہے لہٰذا روز بروز کی سیاسی غیر یقینی ختم کر کے سارا ملک ہی فوج کے سپرد کیا جائے۔ جمہوری اور سیاسی طبقہ جتنا بھی گندا ہو جائے پھر بھی وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اس لئے وہ کبھی بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں آلہ کار نہیں بنتا۔ 1958 کا مارشل لا لگتے ہی امریکہ اور پاکستان دونوں میں 'سب اچھا ہے' کی نوید تھی۔ 1959 میں امریکہ کو پشاور کے پاس بڈھ بیڑ کی چھاؤنی دے دی گئی جہاں سے ان کے جہاز اڑتے اور سوویت یونین کے حساس مقامات کی تصاویر بناتے۔ پاکستان میں امریکی ڈالرز نے معجزات دکھانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے تعمیر نو اور صنعتی ترقی کا دور شروع ہو چکا تھا، مطلب امریکہ اور عوام دونوں خوش تھے۔ فوج کو تو ویسے ہی ہر حال میں عوام کی خوشی چاہئیے ہوتی ہے۔ عوام خوش تو سارا جہان خوش!
امریکہ کے لئے یہ سودا انتہائی منافع کا تھا۔ اپنے سٹریٹیجک فوائد بھی حاصل کرو اور پاکستان میں سیاسی استحکام کو بھی یقینی بناؤ یعنی ملک فوج کے حوالے کر دو۔ ویسے یہ بندوبست پاک فوج کے لئے بھی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ فوجی امداد اور فوجی ساز و سامان کی ترسیل بھارت جیسے طاقتوار دشمن سے مقابلے کے لئے ناگزیر تھی۔ 1960 کی دہائی میں سرد جنگ اپنے جوبن پر تھی اور پاکستان میں مارشل لا بھی۔ پاکستان 1969 میں ایک مارشل لا سے دوسرے مارشل لا کے شکنجے میں جا چکا تھا۔
لیکن یہاں ایک حیران کر دینے والا اتفاق ہے۔ 1969 میں ہی امریکہ اور سوویت روس کے درمیان تعلقات نسبتاً کم کشیدہ ہونے لگے تھے۔ صدر نکسن کے آنے سے امریکی پالیسی میں نرمی آ گئی اور سوویت روس کے ساتھ مذاکرات ہونے لگے اور مختلف معاہدے ہونے لگے۔ ادھر سے پاکستان میں 1970 میں جمہوریت کی بحالی کا سلسلہ اور عام انتخابات ہونے لگے۔ امریکہ کو پاکستان کی ابھی زیادہ ضرورت نہ تھی اس لئے پاکستان میں جمہوریت سے بظاہر امریکہ کو بھی کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ امریکہ اور سوویت روس کے درمیان تعلقات 1969 سے لے کر 1979 تک نسبتاً نارمل سطح پر تھے۔ پاکستان میں 1977 سے ہی پھر سے امریکہ کی ضرورت کے لئے بننے کے لئے تیاری کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اگلے دس برس کے لئے پھر سے امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت تھی لہٰذا پاکستان میں مارشل لا لگا رہا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان میں پھر سے جمہوریت کی بحالی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اسی طرح 9/11 کے بعد افغانستان میں امریکہ کو پھر سے پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان میں ایک دفعہ پھر مارشل لا تھا۔
ان حقائق اور اتفاقات کو دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں فی الحال مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو ابھی پاکستان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ہاں پاکستان کی ضرورت تب پڑ سکتی ہے جب امریکہ چین کے ساتھ سوویت روس والا فارمولہ استعمال کرنا چاہ رہا ہو مگر امریکہ کے اپنے اندرونی اور بیرونی حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکہ ابھی ایسے کسی ایڈوینچر کے موڈ میں نہیں ہے۔ مگر امریکہ کو پھر سے ہماری ضرورت پڑنی چاہئیے کیوںکہ ہم سیاست اور جمہوریت سے بور بھی ہو رہے ہیں اور دیوالیہ ہونے کے خطرات بھی سر پر منڈلا رہے ہیں۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔