جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
2018 کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد جس جماعت کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا وہ اپنے منتقمانہ اور احمقانہ فیصلوں کے وجہ سے عوام میں اتنی جلدی غیر مقبول ہو گئی کہ آج زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا 'ڈی چوک' پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ ان انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن وہ واحد رہنما تھے جو اس اسمبلی میں جانے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے وقت کی نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے انہیں اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ 

ایک ایسی حکومت جو بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہو اسے حزب اختلاف کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے لیکن اس حکومت کو یہ زعم رہا کہ ایمپائر ہمارے ساتھ ہے اسلئے  مخالفت جماعتوں کے ساتھ بنا کر رکھنے کی ضرورت نہیں۔ دو سال تک تو حزب اختلاف نے اس حکومت کے تمام تر زیادتیوں کو جیسے تیسے برداشت کیا لیکن صبر  کی  بھی ایک حد ہوتی ہے۔ 

کل جماعتی کانفرنس کیا ہوئی کہ ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں جو پچھلے دو سال سے اک ستم اور میری جاں، ابھِی جان باقی ہے کی مثال بنی ہوئی تھیں انگڑائی لیکر اٹھیں اور ملکی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے لندن سے پارٹی کی کمان کیا سنبھالی کہ سلیکٹڈ اور سلیکٹرز دونوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔

میاں صاحب نے کل جماعتی کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا جو تمام نجی چینلز پر بھی براہ راست دکھایا گیا۔ اس ایک خطاب نے پاکستانی سیاست کی سمت متعین کردی۔ اس کے بعد میاں صاحب رکے نہیں بلکہ اپنی پارٹی کی CWC اور CEC سے خطاب کر کے سلیکٹرز کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اور ایک کے بعد دوسرا حملہ کر کے انہیں مورچہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ 

حزب اختلاف نے ایک پروگرام مرتب کیا جس کے تحت اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں پورے ملک میں جلسے کئے جائینگے اور جنوری میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائیگا۔ حزب اختلاف نے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلا جلسہ ۱۸ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں منعقد کیا اور اس جلسہ میں میاں صاحب نے جو لائن سیٹ کر دی اب حزب اختلاف کی کسی جماعت کیلئے اس سے انحراف ممکن نہیں اور اگر کوئِی جماعت ایسا کرتی ہے تو ملکی سیاست سے باہر ہو جائیگی یا پرانی کہانیوں کی مثال دیں تو پتھر کی ہو جائیگی۔ 


میاں صاحب کیونکہ اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اس لئے جمہوریت کے خلاف کی گئی تمام سازشوں کے انگنت راز انکے سینے میں دفن ہیں، انہوں نے اگر آج تک ان رازوں سے پردہ نہیں اٹھایا تو مصلحت کے تحت نہ کہ کسی کمزوری کی وجہ سے۔ اب جب انہوں نے سازشیوں کے نام لیکر سازشوں سے پردے اٹھانا شروع کر دیئے ہیں تو ان سازشیوں کے وظیفہ خوار اپنی نوکری بچانے کیلئے کورس میں میاں صاحب کو ملکی مفادات کے خلاف موقف اپنانے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ 


کیا یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اگر آج ملک اس حالت کو پہنچا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا جانتے ہیں لیکن ان لوگوں کی روزی روٹی عوامی حمایت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سازشیوں کے بوٹ چمکانے کی وجہ سے ہے۔ یہ عاقبت نا اندیش اس بات سے بے خبر ہیں کہ وقت کا پہیہ بہت تیزی سے گھوم رہا ہے اور جو اس کے مقابل آئے گا روندا جائیگا۔ عوام نے اپنا فیصلہ دیدیا ہے اور اب شاعر انقلاب فیض احمد فیض کی بات پوری ہونے والی ہے۔

'جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے'

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔