وطن عزیز میں کرونا کی تیسری لہر کے وار جاری ہیں، نئے کیسیز کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ہر دن مریضوں کی پر تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ہسپتالوں میں کرونا وارڈ مریضوں سے بڑھ چکے، نئے مریضوں کے لیے بیڈز دستیاب نہیں، اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سارے مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت ہے، اب آکسیجن کی ڈیمانڈ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور عنقریب ملک بھر میں مریضوں کے لیے آکسیجن کی قلت ہو سکتی ہے۔
جبکہ دوسری جانب، کوئی بھی شہری اس وبا کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں، کرونا sops پر کہیں بھی عمل نہیں ہو رہا، ابھی بھی بازاروں میں اتنا ہی رش دیکھنے کو مل رہا،کوئی ماسک لگانے کو تیار نہیں، حکومت نے ہمیشہ کی طرح تعلیمی ادارے بند کر دئیے ہیں، لیکن پبلک مقامات میں بھیڑ کو کیسے نا جمع ہونے دیا جائے، اسکے بارے میں ہر طرف خاموشی ہے۔
ہمارے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ ہماری حکومت کرونا کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی نا بنا سکی، پہلی لہر کے دوران، بنا سوچے سمجھے، بنا پلاننگ کے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا، جسکی وجہ سے ملک بھر بیروزگاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا، حالات کچھ بہتر ہوئے تو ساری پابندیاں ختم کر دی گئیں، اب جب صورتحال نہایت سنگین ہے اور یہ صورتحال سخت فیصلے کرنےکا تقاضا کر رہی ہے لیکن حکومت لاک ڈاؤن سمیت کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کرونا سے بچنے کا واحد حل احتیاط اور ویکسینیشن ہے، اب ستم یہ ہے کہ پوری دنیا میں سب سے کم ویکسینیشن کی شرح وطن عزیز میں ہے، ویکسینیشن کے بارے میں بھی حکومت واضح حکمت عملی نا ترتیب دے سکی، پہلے کہا گیا کہ چائینیز ویکسین حکومت پاکستان کی سرپرستی میں ہر شہری کو لگائی جائے گی، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد، پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی، اور وہ منہ مانگے داموں میں ویکسین لگا رہے ہیں (پرائیویٹ ویکسین کی قیمت پاکستان میں سب سے زیادہ ہے).
جب دنیا اس مہلک وبا کا شکار ہوئی، تو ہر ملک نے اپنے شہریوں کے تحفط کے لیے ویکسینیشن ریسرچ کو تیز کیا، فارماسیوٹیکل کمپنییز کو کہا گیا کہ وہ جلد از جلد ویکسین بنائیں، ہمارے ہمسایہ ملک نے بھی ایسا ہی کیا، ویکسینیشن کے عمل کو تیز کرنے لیے بزنس مین طبقہ آگے آیا، اس عمل میں انوسٹمنٹ کیا اور وہ ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے، لیکن ہم نے اس جانب کوئی توجہ ہی نا دی، یہ بھی خیال نا کیا کہ اگر ہمارا ہمسایہ ویکسینیشن کے عمل کو سنجیدہ لے رہا تو ہم بھی کچھ کریں، لیکن ہم بھیگی بلی بنے تماشہ دیکھتے رہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس وبا سے بچنے کا واحد حل ویکسینیشن ہے، لاک ڈاؤن، کرفیو، تعلیمی ادارے بند کر دو، کھول دو، یہ سارے کام ہمیں وقتی فائدہ تو دے سکتے ہیں لیکن مستقل حل نہیں دے سکتے، مستقل حل ویکسینیشن میں ہے، ہماری حکومت کو کرونا کے لیے "ویکسینیشن پالیسی " بنانا ہی ہو گی، ہمیں فارماسیوٹیکل کمپنیز کو ویکسین بنانے کا الٹی میٹم دینا ہو گا، ہمیں کرونا ویکسین کو مقامی سطح پر بنانا ہو گا، ہمیں اپنے بزنس مین طبقے کو ویکسینیشن کی لوکل مینوفیکچرنگ کے لیے انوسٹمنٹ پر راضی کرنا ہو گا، ہمیں اہنے ہمسایہ ملک چین سے سبق سیکھتے ہوئے ویکسینیشن مینوفیکچرنگ کے لیے فارماسیوٹیکل کمپنیز کو الٹی میٹم دینا ہو گا کہ آپ نے اتنے عرصے میں ویکسینیشن تیار کرنی ہے ورنہ آپکا لائسنس ختم کر دیا جائے گا۔
کرونا سے بچاؤ کے واحد حل یہ ہے کہ ہمیں "ویکسینیشن " کی طرف آنا ہو گا، ہمیں ہر پاکستانی کو مفت ویکسین لگانی ہو گی، اگر ہم نے ویکسینیشن کے عمل پر انوسٹمنٹ نا کیا تو خواہ آپ الٹا لٹک جائیں، لاک ڈاؤن لگائیں یا نا لگائیں، sops پر عمل کروائیں یا نا کروائیں، ماسک نا لگانے پر جیلوں میں بند کر دیں، آپ اس وبا کو شکست نہیں دے پائیں گے۔ کرونا سے بچاؤ کا واحد راستہ ویکسینیشن سے ہو کر گزرتا ہے، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس واحد حل کی طرف کب آتے ہیں۔
مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔