زندگی بہت آسان ہے، بوجھ سارا خواہشات کا ہے

اللہ رب العزت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اس کو شعور بخشا ہے۔ مگر انسان لالچ سے بھرا ہوا، دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنی خواہشات کو بڑھاتا جاتا ہے۔ پھر ایک دن وہ انہیں خواہشات کے ملبے تلے دبنے لگتا ہے۔ کبھی کبھار ان خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اس کی آنکھوں میں اتنی چربی چڑھ جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو روندھتا ہوا آگے بڑھنے لگتا ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کو بھی اجیرن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگوں میں نے آج تک کامیابی کی سیڑھی چڑھتے نہیں دیکھا۔ ان کی شہرت، عزت، دولت ایک محدود مدت تک ہوتی ہے۔ اس کی بعد ان سب چیزوں کی ایکسپائری ڈیٹ آ جاتی ہے، بعد میں ایسے لوگوں کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

دنیا میں تین اقسام کے دماغ والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی پرواہ کئے بغیر دوسروں کا احساس کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو دوسروں کے نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی پرواہ کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی پروا کرتے ہیں۔ ان تین قسموں میں سے آخری قسم والے لوگ کامیابی و کامرانی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔

میں خود کو زندگی کے مکتب کا نہایت ادنیٰ طالبعلم سمجھتا ہوں، جو ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرنے کے باوجود زندگی سے کچھ نہ سیکھ سکا۔ کیونکہ، زندگی ہر روز، ہر لمحے ایک نیا اور سرپرائز سبق دیتی ہے۔ ہر روز ایک نیا چیلنج آپ کی زندگی کے تجربے کو کورے کاغذ کی طرح صاف کر دیتا ہے۔

زندگی کو غم اور خوشی کا نام بھی کہتے ہیں۔ انسان کو اس دنیا میں آتے ہی مختلف احساسات اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں جہاں بے شمار خوشیاں اور مسرتیں ملتی ہیں وہیں اسے غموں اور سنگین حالات سے بھی آزمایا جاتا ہے۔ زندگی کی اس تگ ودو میں کبھی انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے اور کبھی ناکامیاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔

کچھ لوگ زندگی کے مسائل اور مصائب کا بہادری سے سامنا کرتے ہیں اور اپنی ہمت اور کوششوں سے ان پر قابو پا لیتے ہیں مگر بزدل یا کم ہمت لوگ ان وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

زندگی میں کچھ رشتے، کچھ چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو ہوا کے جھونکے کی طرح آتی ہیں اور رفو چکر ہو جاتی ہیں۔ لیکن، آپ ان سب کو اپنی زندگی میں اتنا حاوی کر لیتے ہیں کہ جب یہ سب آپ سے منہ پھیرتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی سے سارے رنگ اڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اس موقعے پر میں نے اکثر لوگوں سے صرف ایک ہی جملہ سنا ہے کہ ہم تو جیتے جی مر گئے ہیں۔ جیتے جی مر جانا زندگی کی توہین ہوتی ہے۔ یہاں میں یہ لکھنا مناسب سمجھوں گا کہ یہ عارضی رشتے اور چیزیں جن کا نام ہی عارضی ہے، ایک نا ایک دن بچھڑنا ہوتا ہے، لیکن آپ کی آنکھیں دیر سے کھلتی ہیں۔ اس وقت تک پچھتاوے کے علاوہ آپ کے پاس کچھ نہیں بچتا۔

کچھ چیزیں، واقعات، خوشیاں اور حادثات زندگی میں یاد رہتے ہیں لیکن کچھ کو انسان وقت کے ساتھ ساتھ بھول جاتا ہے، جس میں سے اس کی اوقات سرفہرست ہے۔

زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے، اس لئے انسان کو زندگی ایسی گزارنی چاہیے کہ جس میں اپنے نفع کے ساتھ ساتھ دوسروں کا نقصان نہ ہو۔ اس طرح آپ کی زندگی کے ساتھ ان لوگوں کی زندگیاں بھی گلزار ہو جاتی ہیں جو آپ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔

زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

لکھاری نے جامعہ گجرات سے ماس کمیونیکشن اینڈ میڈیا کی ڈگری حاصل کی ہے اور نجی نیوز چینل میں بطور پروڈیوسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔