پی ٹی آئی سے بلّا چھن گیا، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے آئینی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔

پی ٹی آئی سے بلّا چھن گیا، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار

الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کئی فریقین نے چیلنج کیا۔
پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پراعتراض اٹھائے۔ الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا۔
الیکشن کمیشن کے حکم پر پی ٹی آئی نے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرائے۔
عمر ایوب کو آئینی طور پر پارٹی کا سیکریٹری جنرل تعینات نہیں کیا گیا۔عمر ایوب چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کی تقرری کرنے کے مجاذ نہیں تھے۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری ہیں۔ جمال اکبر انصاری کا چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے مستعفی یا ہٹائے جانے کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
پی ٹی آئی آئین کے سیکشن 9 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی معیاد5سال ہے۔فیڈرل الیکشن کمیشن کو نیشنل کونسل دو تہائی اکثریت سے ہٹا سکتی ہے۔
عمر ایوب کا چیف الیکشن کمشنر تقرر کرنے کا 28 نومبر 2023 کے نوٹیفکیشن کی کوئی قانون حیثیت نہیں۔
پی ٹی آئی کے تمام عہدیداران بشمول چیئرمین اپنی مدت مکمل کر چکے تھے۔پی ٹی آئی کے آئین کے تحت پارٹی کے عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر ہیں۔پی ٹی آئی آئین کے تحت پارٹی چیئرمین بھی عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کرسکتے۔
پی ٹی آئی کو اہم فیصلوں کیلئے چیف آرگنائزر کا تقرر کرنا ضروری تھا۔دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی نے کبھی چیف آرگنائزر کا تقرر نہیں کیا۔
چیف الیکشن کمشنر تقرر کرنے کا اختیار آئین کے مطابق چیف آرگنائزر کے پاس تھا۔ پی ٹی آئی کے آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات 13 جون 2021 کو کرائے جانے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے آئینی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔
الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا ایک اور موقع دیا۔ پی ٹی آئی کا 4 دسمبر کو جمع کرایا انٹرا پارٹی سرٹیفکیٹ مسترد کیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کو الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت انتخابی نشان کیلئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر علی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کیخلاف ہائیکورٹ سے رجوع کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ہفتہ کو پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے ممبران پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال تصدیق شدہ فیصلہ موصول نہیں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ تصدیق شدہ فیصلہ ملتے ہی عدالت سے رجوع کریں گے۔ تصدیق شدہ کاپی نہ بھی ملی تو بھی کیس دائر کریں گے جبکہ تصدیق شدہ کاپی نہ ہونے کی وجہ سےعدالت اعتراض اٹھا سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق اگر پی ٹی آئی اپنا بلے کا نشان واپس لینے میں ناکام رہتی ہے تو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی 227 مخصوص نشستوں پر کافی نقصان کا خدشہ ہے۔
اگر پی ٹی آئی عام انتخابات میں اپنی نمائندگی نہیں دکھا پائی تو اسے سینیٹ میں بھی کوئی نشست نہیں ملے گی۔ کیونکہ آئین کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں صرف رجسٹرڈ پارٹیوں اور ایک انتخابی نشان پر لڑنے والی جماعتوں کو الاٹ کی جاتی ہیں۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی کی تعداد 266 ہے جن میں سے پنجاب کی 141، سندھ کی 61، خیبر پختونخوا کی 45 ، بلوچستان کی 16 اور اسلام آباد کی 3 نشستیں ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 593 جنرل نشستوں میں سے پنجاب کی 297 ، سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 115 اور بلوچستان کی 51 نشستیں ہیں۔