زہریلی ہوا سے چھٹکارا پانے کے لیے سب کو مل کر سوچنا ہو گا

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر دھوئیں کو کم کرنے یا ماحول دوست گیسوں میں تبدیل کرنے کے لئے تکنیکی بنیادوں پر سنجیدگی سے کچھ اقدامات کیے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا اور صورت حال بگڑتی چلی گئی۔ اب ہمارے شہر خراب ہوا کے معیار اور فضائی آلودگی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔

زہریلی ہوا سے چھٹکارا پانے کے لیے سب کو مل کر سوچنا ہو گا

فضائی آلودگی ہمارے شہروں اور آبادیوں کو کس طرح اور کتنا متاثر کر رہی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم اب تک یہ تعین نہیں کر سکے کہ ہوا کے معیار اور آلودہ فضا کی درجہ بندی کیسے اور کن اصولوں پر کی جائے۔ مگر اس بات پر سب متفق ہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس اضافے کے باوجود ہم بہتر درجہ بندی کرنے میں ناکام ہیں بلکہ ہمارے ادارے ہوا کے معیار اور آلودہ فضا کی اس نرم درجہ بندی پر مصر ہیں جو فضائی آلودگی کی شدت اور اثرات کو کم بیان کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دی جانے والی درجہ بندی ہمارے اداروں کو قبول نہیں۔

پاکستان کے اکثر شہر اس تباہی سے دوچار ہیں اور فضائی آلودگی کے سبب بیماریوں اور اموات میں اضافہ ناصرف نظر آ رہا ہے بلکہ مستقبل میں اس میں سنگین اضافے کی توقع ہے۔ یوں ہمارے شہروں کا مستقبل صحت عامہ کے مسائل کے لحاظ سے ایک بڑے خطرے میں گھرا ہوا ہے۔ سانس کے امراض، پھیپھڑوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان درجہ بندیوں کو فوری اپ ڈیٹ کر دیا جانا چاہئیے تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

عالمی معیار کے مطابق ہم شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ غیر معیاری ایندھن کا استعمال، فصلوں کی باقیات سے لے کر کچرے تک کا جلائے جانا، فیکٹریوں سے خارج ہونے والا دھواں اور درختوں کی کمی ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے شہروں میں سرکاری سطح پر ہوا کا معیار ماپنے کے پیمانے نصب نہیں۔ جو ہیں ان کی تعداد کم ہے اور نجی طور پر لگائے جانے والے آلات کے نتائج کو حکومتی ادارے تسلیم نہیں کرتے۔

عالمی اداروں کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق یہ بات عیاں ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران کراچی میں آلودگی کی سطح میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ درحقیقت صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ ہوا کے معیار پر نظر رکھنے والی سوئس کمپنی کے مطابق ستمبر 2023 میں کراچی شہر عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ شہر کے طور پر سامنے آیا اور کراچی کی ہوا میں باریک ذرات (پی ایم 2.5) کا ارتکاز 260 تک جا پہنچا تھا۔  PM2.5کا مطلب 2.5 مائیکرو میٹر سے کم قطر کے باریک ذرات کا ہے۔ یہ اصطلاح بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے ماحول میں ان ذرات کی سطح کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی ہوا کے معیار کو 'غیر صحت بخش' کے طور پر درجہ بند کیا گیا تھا جبکہ اس کی PM2.5 کی سطح عالمی ادارہ صحت کی سالانہ ایئر کوالٹی گائیڈ لائن مقدار سے 25.8 گنا زیادہ تھی اور عالمی سطح پر یہ 'خطرناک' شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایئر کوالٹی انڈیکس (ہوا کے معیار کا اشاریہ) 175 تھا جو کہ پاکستانی درجہ بندی کے مطابق 'تسلی بخش' تصور کیا جاتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ 'غیر صحت بخش' ہے۔

پھر نومبر 2023 میں ہم نے لاہور میں دیکھا کہ ایئر کوالٹی انڈیکس (ہوا کے معیار کا اشاریہ) 399 سے لے کر 470 کی سطح تک جا پہنچا تھا اور لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر کہلایا۔ جبکہ PM2.5 (جو زیادہ نقصان دہ ذرات ہوتے ہیں) کا ارتکاز عالمی ادارہ صحت کی سالانہ ہوا کے معیار کی رہنما مقرر کردہ معیار سے 15 گنا زیادہ تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہوا کے معیار کا اشاریہ کچھ اس طرح ہے کہ 151 سے 200 تک کو غیر صحت بخش سمجھا جاتا ہے، جبکہ 201 سے 300 کے درمیان ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی زیادہ نقصان دہ ہے، اور 300 سے زیادہ شمار ہو تو 'خطرناک' ہے جبکہ پاکستان کا اپنا ہوا کے معیار کی درجہ بندی کا نظام بہت زیادہ نرم ہے۔ یہاں 200 سے زیادہ کو 'غیر صحت بخش' اور 400 سے زیادہ بڑھنے کو 'خطرناک' سمجھا جاتا ہے جو کہ کسی طور بھی بہتر نہیں اور صحت عامہ کے مسائل کی وجہ بنتا ہے کیونکہ جب ادارے اس آلودہ ہوا کو جو کہ لوگوں کی صحت کے لئے 'خطرناک' ہے اسے 'غیر صحت بخش' اور 'انتہائی خطرناک اور زہریلی ہوا' کو 'خطرناک' تصور کریں گے تو اس کا سدباب کون کرے گا؟

درجہ بندی اور پیمانوں میں فرق ایک الگ سمت کی جانب لے جاتا ہے جس سے کسی پائیدار حل کی جانب جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر لوگوں کی صحت کی قیمت پر ہم نرم درجہ بندی کیونکر کر سکتے ہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ اداروں کی گلو خلاصی ہو سکے؟

یاد رہے کہ سردیوں میں ہوا کا معیار مزید خراب ہو جاتا ہے کیونکہ موسم گرما کے مقابلے میں سردیوں میں ہوا بھاری ہو جاتی ہے جس سے فضا میں موجود زہریلے ذرات نیچے کی طرف آتے ہیں اور فضا آلودہ ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، آلودہ ذرات کی ایک تہہ، جس میں کاربن اور دھوئیں کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے، شہر کو ڈھانپ لیتی ہے۔

شہروں کی جانب نقل مکانی و آباد کاری کے ساتھ قدرتی ماحول، زراعت و جنگلات میں عدم دلچسپی نے ملک کے بڑے شہروں میں آلودگی میں ہونے والے اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا جھکاؤ شہروں کی طرف ہے۔ پھر ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے عوامل جیسے سیلاب، قحط سالی، شدید بارشیں اور دیگر آفات کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا گیا۔ آج صرف کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی مجموعی آبادی 5 کروڑ سے زائد ہے جبکہ پورے پاکستان کی شہری آبادی 9 کروڑ 37 لاکھ ہے جبکہ دیہی آبادی 14 کروڑ 77 لاکھ ہے۔ یوں کل آبادی کا 38.82 فیصد شہروں میں رہائش پذیر ہے اور شہروں پر بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس بوجھ کی وجہ سے ناصرف ٹریفک میں بلکہ ایندھن کے استعمال اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کارخانوں اور جلائے جانے والے کچرے کے دھوئیں اور کم ہوتے درختوں نے بھی فضائی آلودگی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

فضائی آلودگی کا مسئلہ ترقی یافتہ ممالک میں کافی حد تک قابو میں ہے کیونکہ ان ممالک میں ادارے اور عوام باہمی اشتراک سے کام کرتے ہیں اور عوامی شعور سے صحت عامہ میں بہتری لائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی اداروں کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی صحت، بنیادی سہولیات اور دیکھ بھال کے انتظامات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر اس دھوئیں کو کم کرنے یا ماحول دوست گیسوں میں تبدیل کرنے کے لئے تکینکی بنیادوں پر سنجیدگی سے کچھ اقدامات کیے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا اور صورت حال بگڑتی چلی گئی۔ اب ہم ہر دوسرے دن دیکھتے ہیں کہ ہمارے شہر خراب ہوا کے معیار اور فضائی آلودگی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔ کبھی لاہور پہلے نمبر پر ہے تو کبھی کراچی، حتیٰ کہ پچھلے دنوں پشاور میں بھی شدید فضائی آلودگی پائی گئی اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو انسانی صحت سے جڑا ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کے مطابق زہریلی ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے پاکستان کے باشندوں کی متوقع عمر کے 4 سال کم ہو رہے ہیں۔

آلودہ بلکہ زہریلی ہوا میں سانس لینے کے سبب سانس کے امراض اور پھیپھڑوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اگر ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر صحت مند ہے کیونکہ موسم چاہے جیسا ہی کیوں نہ ہو، گلے کی بیماریاں، کھانسی اور نزلہ ایک معمول ہے۔ پھر سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں بچے یا بوڑھے یا پھر وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں، شامل نظر آتے ہیں۔ اس لیے وقت کا مزید ضیاع کیے بغیر اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے شہروں کے کارخانوں سے کتنا دھواں پیدا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں کتنا ہے؟ صرف کراچی میں ہزاروں گاڑیاں ایسی ہوں گی جو کہ ماحولیاتی تناظر میں شدید فضائی آلودگی کا سبب ہیں اور ان کا فٹنس سرٹیفیکیٹ کسی طور جاری نہیں ہونا چاہئیے۔ شہروں سے آلودگی کم کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی روکتے ہوئے زیادہ درختوں کے لگانے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

ماحول کو بچانے اور فضائی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر کی مینوفیکچرنگ کمپنیاں برقی موٹر سائیکل اور برقی و دو رویہ (ہائبرڈ کار) گاڑیاں بنانے کی دوڑ میں لگی ہیں جن میں پیٹرول یا ڈیزل انجن کی جگہ برقی موٹر بمع بیٹری جبکہ دو رویہ کار میں پیٹرول انجن کے ساتھ الیکٹرک موٹر اور بیٹری بھی دی جاتی ہے۔ برقی کار یا موٹر سائیکل کا سب سے بنیادی فائدہ یہ ہے کہ اس سے فضا آلودہ نہیں ہوتی جبکہ ہائبرڈ کار کم دھواں چھوڑتی ہے لیکن ہمارے ملک میں لوگوں کی ترجیح یہ نہیں کیونکہ ایک جانب بجلی اتنہائی مہنگی ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب بیٹریوں کی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگی ہے جو عام شہریوں کی استطاعت سے باہر ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں کچھ پالیسیاں بناتے ہوئے عوام کی مالی معاونت کرنی ہو گی جس سے ہم ماحول دوست گاڑیوں کو فروغ دے سکیں اور اس زہریلی ہوا سے چھٹکارا مل سکے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے