پرویز رشید کی ریسٹ ہاؤس بل کی نا دہندگی پر نااہلی: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

پرویز رشید کی ریسٹ ہاؤس بل کی نا دہندگی پر نااہلی: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
 

جیسے ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچا وہاں پرویز رشید کی میڈیا سے گفتگو شروع ہو چکی تھی جو جملے انکے منہ سے نکل رہے تھے وہ یہ تھے۔ میں جانتا ہوں مجھے کیوں نادہندہ قرار دیا گیا ہے۔ میری آواز کیوں دبائی جا رہی ہے۔ حکومت مجھے سینیٹ میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں 96 لاکھ کا بل جمع کرانے کو تیار ہوں۔ یہ ساری منظر کشی احاطہ عدالت کی ہے اب منظر بدلتا ہے کمرہ عدالت کے اندر کا منظر جہاں پروز رشید کی اپیل کی سماعت ہو رہی ہے۔ پرویز رشید کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ اور احسن بھون جیسے ہیوی ویٹ الیکشن کمیشن کے وکیل شہراز شوکت،تحریک انصاف کے وکیل سعد رسول،،سماعت شروع ہوتی ہے۔  وکیل الیکشن کمیشن درخواست گزار نے کنٹرولر پنجاب ہاؤس کو رقم کی ادائیگی کی جو درخواست دی ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔ یہ کراس چیک ہے جو صرف کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے دیا گیا ہے اگر دو ماہ کے اندر رقم جمع نہ ہو 20فیصد جرمانہ لگ جاتا ہے۔ وکیل تحریک انصاف کاغذات نامزدگی داخل کرانے سے چھ ماہ قبل امیدوار کا یوٹیلیٹی بلز کلیر ہونا ضروری ہے۔ ایک اور ہیوی ویٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کا موقف پرویز رشید نے کبھی نہیں کہا کہ دس سال تک کمرہ انکے استعمال نہیں رہا۔ رٹیرنگ آفسر نے ایک دن کی مہلت دی پھر بھی رقم جمع نہ کرائی گئی۔

پروز رشید کے وکلاء ،ہمارے موکل کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کبھی ہمارے موکل کو براہ راست نوٹس جاری نہیں کیے گئے۔ ساری بحث کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ تاہم پرویز رشید کو اپیل کا حق دیا گیا جو وہ دائر کر دیں گیں۔ پروز رشید کو الیکشن کمیشن نے 96 لاکھ کا نادہندہ قرار دے کر انکی کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے پنجاب ہاؤس کا کمرہ دس سال انکے پاس رہا۔  دس سال تک پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اس دروان پرویز رشید تین سال وزیر اطلاعات ونشریات بھی رہے۔ انکے پاس اسلام آباد میں سرکاری گھر بھی تھا اس کے باوجود پنجاب ہاؤس کا کمرہ انکے استمال میں رہا اس دوران انکی بیٹی پونم رشید بھی وہ کمرہ استمال کرتی رہیں۔ انکے ذمہ 26 لاکھ اور باقی رقم انکے والد کے ذمہ واجب ادا ہے۔

نظریاتی سیاست کے دعوے دار نواز شریف کے بیانے کے خالق مریم نواز کے اتالیق کے بارے میں اہم ہیں۔ کسی دور میں پنجاب کا ڈی جی پی آر انکی جنبش آبرو کے بغیر کسی اخبار کو اشتہار جاری ہو جاتا تو اس کی شامت آجاتی تھی ،آج اقتدار نہیں تو رقم تو ادا کرنی ہو گی۔ اگر کوئی شخص کسی سرکاری رسیٹ ہاؤس میں دس سال رہے کیا اسکو نہیں پتہ ہوتا کہ میں نے واجبات بھی ادا کرنے ہیں۔ ہمارے سیاست دان خود موقع فراہم کرتے ہیں انکی پگڑیاں اچھالی جائیں اور پھر کچھ ہو جائے تو جمہوریت خطرے میں کہا بھاشن شروع ہو جاتا ہے۔ ادھر ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ والا معاملہ نظر آتا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔