دنیا کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کے ذمہ دار مرد ہیں؟

دنیا کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کے ذمہ دار مرد ہیں؟
مرد اور عورت کے رشتے کا توازن کسی بھی معاشرے کے تمام پہلووں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس معاشرے کے صنفی نظام کو تشکیل دیتا ہے۔ پھر یہ صنفی نظام صرف صنف کی تعریف تک باقی نہیں رہتا۔ یہ معاشرے کے دیگر پہلووں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک معاشرہ اگر پدر شاہی نظام کے تحت چلتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہاں کے قانون پدر شاہی کے خلاف ہوں۔ وہاں کے معاشی اصول خواتین کے فائدہ کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہوں یا پھر جہاں کی سیاست میں مرد اور عورت کے لیئے برابر مواقع ہوں بلکہ یہ کہ بہت سارے سیاسی مقابلے بلا مقابلہ جیت لیئے جاتے ہوں۔ سو اسی طرح مذہب ہے کہ اگر پدر شاہی معاشرے کا مقبول عام مذہب ہوگا تو اس میں موجود مقدسات کے تصور بھی اکثر مذکر ہوں گے جبکہ ملعونات اکثر مونث سے جوڑ دی جائیں گی۔

پھر جرائم کی دنیا ہے، جہاں متاثرین اگر خواتین ہوں گی تو انکا نقصان مردوں کی نسبت زیادہ ہوگا۔ اس عدسے کو آپ کسی بھی پہلو زندگی سے جوڑ لیں تو بات آسانی سے سمجھ آتی جائے گی۔ اب تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ صنف کی یہ تفریق جس مسئلے کو جنم دیتی ہے وہ صرف مرد و عورت کے درمیان پیدا ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
مرد و عورت کے درمیان بننے والے رشتے میں طاقت کے توازن کا براہ راست اثر ایسے معاملات پر بھی براہ راست پڑتا ہے جن کا کہ شاید بظاہر اس سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر موسمیاتی تبدیلی جیسا سنگین عالمی مسئلہ جس سے پوری دنیا اور خاص کر وطن عزیز پاکستان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ مرد اور عورت کے رشتے میں طاقت کے توازن کا موسمیاتی تبدیلی اور اس سے نمٹنے کی کوششوں سے براہ راست تعلق ہے۔ ایسا کیسے ہے؟

رائٹرز کی رپورٹ اور لندن نمائش

اس حوالے سے بین الاقوامی نشریاتی ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی انسان کا بنایا ہوا ایک بحران ہے جو کہ مفسد مردانگی اور تباہ کن پدر شاہی نظام کی وجہ سے مزید سنگین ہو رہا ہے۔ اور سنگینی کی قیمت صرف اور صرف خواتین ادا کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے رپورٹ میں ایک نمائش کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی اور صنف کے موضوع پر منعقد کی گئی اور اس میں 30 کے قریب فنکاروں نے اپنے شہپارے پیش کیئے۔ اس نمائش کے منتظمین میں سے ایک ڈو دی گرین تھنگ کے نمائندہ جانسن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی براہ راست صنفی معاملہ ہے۔ یہاں مرد اسے مزید بگاڑتے ہیں اور اس بگاڑ کی تمام تر قیمت صرف اور صرف خواتین دیتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی صنفی وجوہات ہے اور صنفی نتائج ہیں۔ اس کے حل بھی صنفی توازن میں پنہاں ہیں۔

اقوام متحدہ نے اس بارے میں کیا کہا؟
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والوں میں 80 فیصد سے زائد خواتین اور چھوٹی بچیاں ہیں۔ جبکہ yale یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق مرد ماحولیاتی تحفظ کی سیاست سے اس لیئے دور بھاگتے ہیں کہ ان۔کے لیئے یہ زنانہ سی بات ہے۔ جبکہ دوسری جانب اب باقاعدہ تحقیق موجود ہے کہ مرد اپنی روز مرہ سرگرمیوں میں کاربن کے اخراج میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔
اس نمائش کے ایک اور منتظم کا کہنا تھا کہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ ماحول دوست ہوتی ہیں۔ وہ کوڑا کرکٹ کم پھیلاتی ہیں وہ ری سائکلنگ پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ الیکڑک گاڑیاں خریدتی ہیں اور ایسے سیاستدانوں کو ووٹ کرتی ہیں جو کہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ جبکہ مرد اپنی مردانگی ثابت کیئے رکھنے کے لئے ایسے معاملات سے دور رہتے ہیں جو ماحول دوستی پر مبنی ہوں۔
اس رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی اور نظام اصناف کے درمیان جو تعلق کھینچا گیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ تاہم اسکی مثالیں واضح ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کو لے کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی کم سن بچی گریٹا تھمبرگ ہے۔ زیادہ تر ممالک جن کی پالیسی فہرست میں موسمیاتی تبدیلی نمبر ون ہیں ان کی حکمرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ گو کہ پاکستان میں وزارت موسمیاتی تبدیلی کی وزیر خود ایک خاتون ہیں تاہم اس کے تدارک کے لیئے کبھی بھی کسی خاتون کو کوئی بڑا عہدہ یا کردار نہیں مل سکا پھر چاہے وہ وزیر اعظم عمران خان کا بلین سونامی ٹری منصوبہ ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ پاکستان میں کوئی بھی عہدہ کسی خاتون کو تب دیا جاتا ہے جب وہ انتظامی طور پر بے کار اور مفلوج عہدہ سمجھا جائے۔ اس تناظر میں یہ رپورٹ اس ضرورت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیئے ہمیں پالیسی سطح پر جینڈر لینز یعنی صنفی عدسے سے دنیا کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کا پائیدار حل نکالا جا سکے۔