عجب اتفاق ہے کہ آج ملکی منظر نامے پر نمایاں تین بڑی شخصیات کو ماضی میں مختلف اداروں کی مخالفتوں کا سامنا رہا ہے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود یہ شخصیات آج عوام کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی سازشوں اور مخالفتوں سے کون واقف نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے محکمہ کے خود پسند اور مفاد پرست برادر ججز کی مخالفتوں کا شکار رہے بلکہ ہمارے سلامتی کے اداروں کے ماضی کے کرتا دھرتا بھی قاضی صاحب کی قانون پسندی سے خوف زدہ رہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی اسی بنا پر عہدے سے فارغ کیا گیا کیونکہ وہ بھی نہ صرف قانون پر عمل درآمد پر بضد تھے بلکہ قانون اور آئین کے خلاف سازشیں کرنے والے اشخاص کو انہوں نے عوام کے سامنے بے نقاب کر کے رکھ دیا تھا۔ ثاقب نثار سے لے کر کھوسہ، گلزار اور بندیال تک کسی چیف جسٹس نے قاضی صاحب کو سینیئر ہونے کے باوجود کسی اہم مقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ میں کبھی شامل نہیں کیا۔ کیا وجہ تھی ایسا کرنے کی؟ صرف یہ کہ قاضی صاحب سے لکھے ہوئے فیصلے پر دستخط لینا ممکن نہیں تھا۔ قاضی صاحب کے خلاف ریفرنس کا بھیجنا بھی قاضی صاحب سے جان چھڑانے کی ہی ایک کوشش تھی جو قاضی صاحب کی صاف شفاف شخصیت کے سبب کامیاب نہ ہو سکی۔ انصاف کے نام پر جتنی بے انصافی ہماری عدالتوں میں ہوتی ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔
جنرل حافظ عاصم منیر کا معاملہ بھی بقول شاعر کچھ ایسا ہے؛
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
حافظ صاحب کے بارے میں بھی یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ آئین اور قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔ اپنے اسی وصف سے مجبور ہو کر ماضی کے وزیرِ اعظم کے پاس پہنچے اور انہیں اس کرپشن سے آگاہ کیا جس کا کھرا خود وزیر اعظم کے گھر تک جا رہا تھا۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے آئین و قانون پر عمل کرنے کی مثالیں دینے والے وزیر اعظم نے بجائے انہیں شاباش دینے کے اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے کہہ کر ڈی جی آئی اس آئی کے عہدے سے ہی برطرف کروا دیا۔ جب نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا وقت آیا تو سب سے سینیئر جنرل ہونے کے باوجود وزیر اعظم کو بھیجی گئی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ عمران خان کیونکہ حافظ صاحب سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے حفظِ ما تقدم کے طور پر حافظ صاحب کے خلاف لانگ مارچ کرنے نکل پڑے۔ لاکھوں کا مجمع دیکھنے کے خواہش مند شخص نے جب قلیل تعداد میں لوگ دیکھے تو 'جلسی' سے خطاب کر کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی ہی حکومتیں برطرف کرنے کا اعلان کر بیٹھے۔ قدرت کے فیصلے اٰٹل ہوتے ہیں اور انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ تمام تر مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود حافظ صاحب آج پاکستان کے آرمی چیف ہیں۔
نواز شریف نے پہلی بار وزیرِ اعظم کی حیثیت سے 1990 میں حلف اٹھایا لیکن صرف ڈھائی سال بعد ہی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے وفادار صدر نے آئین کی شق 58 ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔ دوسری بار میاں صاحب عوام کی طرف سے بھاری مینڈیٹ لے کر 1997 میں وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن تقریباً ڈھائی سال کے بعد ہی اس بار اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اپنے چار پیاروں کے ساتھ ملک کر نہ صرف میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا بلکہ پہلے انہیں قید کیا اور پھر جلاوطن کر دیا۔ 2013 میں میاں صاحب نے تیسری بار ملک کی باگ ڈور سنبھالی لیکن اس بار انہیں عدالت کے ذریعے ساری عمر کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس بار بھی ملک میں میاں صاحب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے علاج کے بہانے دوسری بار ملک بدر کیا گیا۔ اب میاں صاحب ایک بار پھر پاکستان پہنچے ہیں اور جس طرح عوام نے ان کا استقبال کیا ہے وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عوام میاں صاحب کی قیادت اور ماضی میں ان کے کاموں سے مطمئن ہیں اور انہیں دوبارہ مسند اقتدار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
بلا شک و شبہ مندرجہ بالا تینوں شخصیات ماضی میں مظلومیت کا شکار رہی ہیں لیکن آج پاکستانی افق پر جلوہ افروز نظر آتی ہیں۔ ان کے ماضی کے کاموں کو دیکھتے ہوئے عوام بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تینوں اشخاص نہ صرف اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں بلکہ ملک کی سلامتی اور ترقی میں ایک دوسرے کے ممد و معاون بنیں۔ پاکستان اب مزید کسی تجربے کا متحمل نہیں رہا لہٰذا اس بہتر مستقبل کیلئے سب اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔