کنٹرولڈ جمہوریت، مصنوعی لیڈرشپ اور مقتدرہ کی چالیں ملک کو لے ڈوبیں گی

بھٹو سے لے کر عمران خان تک جتنے سیاست دان پیدا کیے گئے ہیں ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف یا ان کی لڑائی حقیقی جمہوریت یا عوامی بالادستی کیلئے نہیں ہوتی رہی بلکہ اپنے بڑھتے ہوئے سیاسی جثے کے مطابق اقتدار اور اختیارات میں حصہ لینے پر ہوتی رہی ہے۔

کنٹرولڈ جمہوریت، مصنوعی لیڈرشپ اور مقتدرہ کی چالیں ملک کو لے ڈوبیں گی

'پروجیکٹ عمران' کو پروان چڑھانے اور ان کو اقتدار کی مسند پر بٹھا کر جو مقصد کھلے بندوں حاصل نہیں کیا جا سکا اب سیاسی پس اور پیش منظر دونوں سے عیاں ہے کہ اس پروجیکٹ کو ختم کرنے کے نام پر اس مقصد کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ فی الحال کامیاب نظر آ رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا شروع سے مقصد رہا ہے کہ ریاستی طاقت کے تمام مراکز اس کے ہاتھ میں ہوں، قومی وسائل اور ان کی تقسم پر کنٹرول، حق عطا اور استعداد ان کو حاصل ہو لیکن اس عمل کے سیاسی و معاشی نتائج کی ذمہ داری ان اپنے کے سر نہ ہو بلکہ اس ذمہ داری کو تھوپنے کیلئے ان کو کرایے کا سر درکار ہوتا ہے جس کے ذریعے پوری سیاست کو گالی بنا کر پیش کرتے ہوئے تمام سیاست دانوں کو عوام کی نظروں میں بدعنوان، بد عہد اور نا اہل ثابت کیا جائے۔

یہ عمل، جس کو اب عرف عام میں سیاسی انجینیئرنگ اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی نرسری کہا جاتا ہے، باقاعدہ طور پر جنرل ایوب کے دور میں شروع ہوا۔ لیکن اس وقت برصغیر کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والے اور اس ماحول میں تربیت پانے والے قد آور حقیقی سیاسی قائدین و عمائدین اور ان کے پیروکار موجود تھے جو اس عمل کی کماحقہ مزاحمت کر رہے تھے۔ اس زمانے میں اور خصوصاً ان سیاسی قائدین و عمائدین پر کسی سیاسی، مالی و اخلاقی بدعنوانی کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ مسلم لیگ اور چند دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ وہ نہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار میں شریک و ہمکنار رہے تھے اور نا ہی ان کے بل بوتے پر سیاست میں آئے تھے۔ اس لیے ان پر ہمیشہ کفر اور غداری کے فتوے لگائے گئے لیکن کرپشن کے نہیں۔

بنیادی جمہوریت والی سکیم کی ناکامی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں پاپولسٹ یا مقبول سیاسی رہنما پیدا کیا گیا لیکن مشرقی پاکستان میں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکا۔ اس کا فوری نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بعد میں ایک اور مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا جس نے باقی ماندہ پاکستان کے رگ و پے میں وہ زہر و بارود گھول دیا جس کا علاج آج بھی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

بھٹو کے تجربے سے اسٹیبلشمنٹ نے وقتی طور پر بس اتنا سیکھا کہ فطری سیاست اور سیاست دانوں کے مقابلے کیلئے اپنا بندہ عوام میں مقبول بنا کر پیش کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ وقتی طور پر بھٹو کے ذریعے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کو دیوار سے لگا کر کمزور ضرور کیا گیا لیکن مقبولیت کے بعد بھٹو بذاتِ خود اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی کیلئے خطرہ بن گیا۔ بھٹو اپنی سرشت میں نظریاتی تھا اور نا ہی جمہوری بلکہ اسے اس شکل میں پیش کرنا وقت، اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو تینوں کی مجبوری تھی۔ ملک بننے کے بعد تقریباً دو دہائیوں سے سویلین افسر شاہی سے لے کر مارشل لاء کی حکمرانی تک ہر قسم کا تجربہ کر لیا گیا تھا اور عوام میں گھٹن، مایوسی اور نا امیدی گھر کر چکی تھی۔ اس کا مداوا کرنے کیلئے کنٹرولڈ جمہوری ڈرامہ رچانا ناگزیر تھا لیکن دو عوامل نے اس رنگ میں بھی بھنگ ڈال دی۔

سردست مشرقی پاکستان میں سیاسی شعور و بیداری اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت پہلی رکاوٹ تھی جس نے اسٹیبلشمنٹ کیلئے وہاں کی سیاست کو قابو کرنا مشکل بنا دیا اور دوسری وجہ سقوط بنگال کے بعد عوام میں بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت بنی۔ شروع میں تو اسٹیبلشمنٹ بھٹو کو میدان میں اتار کر ان کی پذیرائی میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لے آئی لیکن بعد کے حالات نے بھٹو کو بذات خود ایک مقبول رہنما بنا دیا۔

اس مقبولیت میں بھٹو سے زیادہ کمال وقت کا تھا۔ چونکہ 1970 کے انتخابات سے پہلے پاکستان کے عوام کو عام بالغ رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا۔ ووٹ کا حق صرف مخصوص افراد کو حاصل تھا اور اس طرح صرف انہی افراد کو نام نہاد عوامی نمائندوں، سرکاری دفاتر اور عوامی وسائل تک رسائی حاصل تھی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قابل بحث ہے کہ عوام کو عام بالغ رائے دہی کا حق دلانے یا ہر فرد کو ووٹ کا حق دلانے میں بھٹو کا کیا اور کتنا کردار تھا۔ لیکن اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق 1970 سے پہلے جمہوریت اور عوامی نمائندگی کی کوئی مثال موجود نہیں تھی تو اس تناظر میں عوام کے لیے بہت قلیل بھی بہت کچھ تھا۔ اس لیے اس ضمن میں بھٹو سے زیادہ کمال وقت اور معروضی حالات کا تھا۔

اگر بھٹو حقیقی جمہوریت پسند ہوتا تو ملک ٹوٹنے اور اسٹیبلشمنٹ کے کمزور ہونے کے بعد ان معروضی سیاسی حالات میں بہت کچھ کر سکتا تھا۔ وہ جمہوریت پسند ہوتا تو جمہوریت، عوامی بالادستی اور روٹی، کپڑا، مکان کے مطالبے کو محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال نہ کرتا، جیسا کہ عمران خان نے ریاست مدینہ اور تبدیلی کے نعرے کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا، بلکہ بھٹو سکیورٹی ریاست کے تصور کو فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیتا لیکن ان کا مطمع نظر تو آمرانہ اختیار کے ساتھ اقتدار تھا جس میں صرف ان کی ذات کو اسٹیبلشمنٹ پر فوقیت حاصل ہو کیونکہ اب وہ اپنے آپ کو مقبول عوامی لیڈر سمجھ بیٹھا تھا اور یہ بھٹو کو بنانے اور لانے والوں کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ یہی اب تک نواز شریف کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور عمران خان کے ساتھ بھی اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔

بھٹو کو ذہن میں رکھ کر جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں فوج نے نیا تجربہ شروع کیا۔ بجائے ایک فرد کو مقبول بنانے کے یونین کونسل، صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی سطح پر ایک نیا سیاسی طبقہ تشکیل دیا۔ اس طبقے کا مطمع نظر کوئی سیاسی نظریہ نہیں بلکہ سرکاری وسائل اور اپنی اپنی سطح پر طاقت کا حصول تھا۔ اس کیلئے ان کا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر تھا اور اس کے بدلے میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے سیاسی خدمات فراہم کرنا تھا۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر ان کو وسائل مہیا کیے گئے، سرکاری دفاتر میں ان کو پذیرائی ملنے لگی۔ قومی و صوبائی اسمبلی سے لے کر یونین اور ضلع کونسل تک کے ممبرز اور ان کے منتخب ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں سیاست اور طاقت مرکوز ہو کر رہ گئی۔ بعد میں انہی ٹھیکیداروں میں سے اکثر پیسے کے بل بوتے پر سیاست اور انتخابات میں بھی حصہ لینے لگے۔

آج کل جس کرپشن اور سمگلنگ کا رونا دھونا جاری ہے اس کی بنیاد جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور نام نہاد افغان جہاد کے دور میں پڑی تھی جس نے سیاست اور سماج دونوں کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔ اس وقت سے ہر سیاسی جلسہ اور اجتماع پیسے کے زور پر منعقد ہونا شروع ہوا۔ اس سے پہلے سیاسی کارکنان جلسوں و دیگر سیاسی سرگرمیوں کیلئے چندہ جمع کرتے تھے لیکن جنرل ضیاء کی سیاسی انجینیئرنگ کے بعد مخصوص لوگ نا صرف سیاسی سرگرمیوں کو بلکہ پوری پوری سیاسی جماعتوں کو ہی فنانس کرنے لگے اور اپنی لاگت کو بعد میں سود سمیت قومی وسائل سے وصول کرتے رہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چلنے والے سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں لوگوں کو لانے کیلئے آرام دہ ٹرانسپورٹ، بیٹھنے کیلئے کرسیاں یا قالین اور کھانے کے لیے بریانی کی دیگیں میسر ہونے لگیں۔ میڈیا میں پبلسٹی و پذیرائی صرف انہی کو ملنے لگی۔ لیکن اس سب کا الزام سیاست پر آیا جو اسٹیبلشمنٹ کا اصل مقصد تھا اور اس وقت بھی ہے۔ فطری سیاست اور حقیقی سیاسی رہنماؤں، جماعتوں اور کارکنان کیلئے سیاست کرنا مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا۔

اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جن سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں یا جو کرپشن میں ملوث ہیں یہ کم و بیش وہی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نے خود پیدا کیے ہیں، ورنہ جو سیاست دان اور رہنما عوام نے پیدا کیے ہیں ان کے خلاف یہ آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا سکے بلکہ ان پر محض غداری کے الزامات لگانے اور پروپیگنڈا کرنے پر ہی اکتفا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس سارے انتظام کے باوجود ایک بار پھر نوازشریف بے قابو ہو گیا جسے قابو کرنے کیلئے ایک مرتبہ فوجی اور دوسری مرتبہ عدالتی مارشل لاء لگانا پڑا۔ اس بار 'پروجیکٹ عمران' کے خاتمے کے نام پر اسے قابو کرنے کے کوشش ہو رہی ہے۔ بھٹو سے لے کر عمران خان تک جتنے سیاست دان پیدا کیے گئے ہیں ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف یا ان کی لڑائی حقیقی جمہوریت یا عوامی بالادستی کیلئے نہیں ہوتی رہی بلکہ اپنے بڑھتے ہوئے سیاسی جثے کے مطابق اقتدار اور اختیارات میں حصہ لینے پر ہوتی رہی ہے۔

بادی النظر میں فی الحال اسٹیبلشمنٹ نے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو باندھ کر اپنی بالادستی کو درپیش ممکنہ خطرات پر قابو پا لیا ہے لیکن پھر بھی سیاست فطری طور پر ایک محرک عمل ہے اور اس کو زیادہ عرصے تک مصنوعی انداز میں نہیں چلایا جا سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسی قسم کے حالات ہی اصل سیاسی تحریکوں اور رہنماؤں کو جنم دیتے آئے ہیں۔ مگر موجودہ عالمی سیاسی صورت حال اور اس کے نتیجے میں ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ، غیر یقینی و عدم استحکام سے دوچار ہمارے سیاسی و معاشی حالات کو دیکھا جائے تو یہ فکر دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ کہیں ہم کسی بڑے حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔