مسلم لیگ کے سنیٹر مشاہد اللہ خان کی صحافیوں سے گفتگو میں چند معنی خیز باتیں کی ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر خواجہ آصف نے چیف الیکشن کمشنر کی بجائے آرمی چیف کو کیوں کال کی؟ جس کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ ان کا آر ٹی ایس سسٹم جب بیٹھ جاتا ہے اس لیے انھیں کال نہیں کی. فوج چونکہ الیکشن سنٹرز کے اندر اور باہر تعینات تھی اس لئے شکایت کس سے کرینگے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف نے اداروں کے خلاف کوئی تقریر نہیں کی۔ اگر نواز شريف کی تقریر پر حکومت کو تشویش ہے تو وزیر اعظم عمران خان نے ہندوستان میں جو تقریں کیں ہیں اس پر سارا سوشل میڈیا اب بھی بھرا ہوا ہے۔
میاں نواز شریف کے تقریر عمران خان کے تقاریر کا موازانہ کیا جائے تو ایکشن کس کے خلاف بنتا ہے. آپ خود انصاف کر لیں۔نواز شریف نے مسئلہ بیان کیا ہے بجائے اس کے کہ مسئلہ حل کرتے پوری حکومت اس کے پھیچے لگ گئی۔ عمران خان فوج کے خلاف کیا کچھ نہیں کہہ چکے ہیں۔ عسکری قیادت سے سیاسی قیادت کی ملاقات پہلی بار نہیں ہوئی، ایسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں
اسٹیبلشمنٹ کا جب اثر رسوخ ہوگا تو بات چیت انہیں سے ہوگی۔ شیخ رشید ، پرویز الہی اور دیگر کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ایک پیج پر ہیں۔ فوج کسی ایک جماعت کی نہیں ہوتی بلکہ پورے ملک کی ہوتی ہے۔ شیخ رشید جیسے لوگوں کو اگر پنڈی سے نہ جتوایا جائے تو ان کی ضمانتیں منسوخ ہو جائیں۔ اورسیز پاکستانیوں کے ٹکٹ کا مسلہ حکومت کی وجہ سے ہے۔ حکومت اس چیز پر لگی ہے کہ نواز شریف تقریر کے گا نہیں کرے گا۔ حکومت عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے۔
حکومت انتقامی کارروائیوں میں لگی ہوئی ہے۔ فوج میں ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ 2013 تک فوج کو 550 ارب روپے سالانہ ملتے تھے۔ جب نواز شریف نے اقتدار چھوڑا تو 11 سو ارب روپے کرکے گئے تھے۔ فوج سے نواز شریف کی محبت ہے تو یہ کر گئے تھے۔ میاں صاحب جتنے فوج کے حق میں ہیں اور جتنی محبت فوج سے اتنی کسی کو نہیں۔ لیکن اگر کوئی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کرتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ عسکری قیادت سے سیاسی قیادت کی ملاقات پہلی بار نہیں ہوئی، ایسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا جب اثر رسوخ ہوگا تو بات چیت انہیں سے ہوگی۔