دو درجن جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نریندر مودی کو ہرا سکتا ہے؟

نریندر مودی مسلسل 10 سال سے وزیر اعظم ہیں۔ اب ان کا قد کاٹھ نہ صرف پورے بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ بھارت کے سیاسی پنڈتوں کے مطابق جو لکھنؤ جیتا، وہی دلی جیتے گا اور لکھنؤ کے ریاستی انتخابات بی جے پی جیت چکی ہے۔

دو درجن جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نریندر مودی کو ہرا سکتا ہے؟

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے مرکزی لوک سبھا کے انتخابات کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو منعقد ہو چکا ہے۔ دیگر چھ مرحلے 26 اپریل، 7 مئی، 15 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون کو ہوں گے۔ یوں 7 مرحلوں کے بعد پولنگ کا عمل مکمل ہو جائے گا اور 4 جون سے نتائج کا اعلان شروع ہو جائے گا۔

2019 میں ہونے والے الیکشن میں بی جے پی نے 303 سیٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ اتحادی جماعتوں کو ملا کر 543 رکنی لوک سبھا کے ایوان میں ان کی تعداد 352 ہو گئی تھی۔ کانگریس کو صرف 55 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ راہول گاندھی یو پی کے الہٰ آباد سے اپنی آبائی نشست ہار گئے تھے۔ ایک ٹی وی ایکٹریس سمرتی ایرانی نے ان کو ہرایا تھا۔ راہول گاندھی جنوبی بھارت کی ریاست کیرالہ سے جیتے تھے جو ان کے لیے نیا حلقہ تھا۔

بھارت کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے۔ ووٹروں کی تعداد 90 کروڑ 69 لاکھ ہے۔ بھارت کی 28 ریاستوں اور 8 یونین شہروں میں انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس بار بی جے پی کو ایک بہت بڑے انتخابی اتحاد کا سامنا ہے جس کی سربراہی کانگریس کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ دو درجن کے قریب سیاسی جماعتوں کی حمایت ہے۔ اس اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہوا ہے۔

راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس مسلسل دو الیکشن 2015 اور 2019 میں ہار چکی ہے۔ اس سے پہلے 2005 سے 2015 تک دس سال کانگریس کی حکومت رہی۔ ان کے پردھان منتری ڈاکٹر من موہن سنگھ تھے۔ کچھ احباب کے مطابق وہ ایک کمزور سیاسی وزیر اعظم تھے۔ کانگریس کو 2010 کا الیکشن جیت کر ان کو دوسری بار پردھان منتری نہیں بنانا چاہیے تھا۔ سونیا گاندھی یا راہول کو خود وزیر اعظم بننا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا جس کا گانگریس کو بہت نقصان ہوا۔ راہول گاندھی پورے عالمی سطح کے تو کیا پورے بھارت کے مقبول سیاست دان نہ بن سکے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کےلیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بی جے پی مسلسل 10 سال سے اقتدار میں ہے اور نریندر مودی 10 سال سے وزیر اعظم ہیں۔ اب ان کا قد کاٹھ نہ صرف پورے بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ بھارت کے سیاسی پنڈتوں کے مطابق جو لکھنؤ جیتا، وہی دلی جیتے گا۔ لکھنؤ اتر پردیش کا دارالحکومت ہے جہاں سب سے زیادہ لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہوتی ہیں۔ یو پی کے دو سال پہلے ہونے والے ریاستی انتخابات بی جے پی جیت چکی ہے۔ یو پی کے مکھیا منتری یوگی آدتیا ناتھ نے کانگریس اور بھارتی سماج پارٹی کو دو بار مسلسل ہرا دیا ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات بی جے پی جیت جائے گی اور نرنیدر مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم بن کر ہیٹ ٹرک کریں گے۔ ان کے مقابلے اور مقبولیت کا کوئی سیاست دان بھارت میں نہیں ہے۔ ان کے دور میں بھارت کی معاشی ترقی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ دنیا کی 5 بڑی معاشی طاقتوں میں سے بھارت ایک ہے۔ بھارت کے سائنس دان چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ 80 کروڑ بھارتی شہریوں کو مفت اناج مل رہا ہے۔ ان کی عورتوں کو 1250 روپے ماہانہ ملتے ہیں۔

اگرچہ کانگریس کی زیر قیادت 24 رکنی انتخابی اتحاد نے راہول گاندھی کے ساتھ مل کر زبردست انتخابی مہم چلائی ہے مگر عام تاثر یہی ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی 543 رکنی لوک سبھا میں سے 272 سے زائد سیٹوں پر کامیاب ہو کر مسلسل تیسری بار حکومت بنا لے گی۔

حرفِ آخر بھارت میں کبھی بھی نگران حکومت نہیں بنی۔ اس وقت بھی وزیر اعظم ہاؤس اور آفس میں نریندر مودی بیٹھے ہیں اور انتخابی عمل میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کے پاس ہیں۔ وہ صرف دفتر میں فائل ورک تک محدود ہیں اور بھارت کی فوج کو خبر ہی نہیں کہ الیکشن میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا یہ سب پاکستان میں ممکن ہے؟

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔