پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے شہری سلمان فاروق کے لاپتہ ہونے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی سیف سٹی پراجیکٹ کوآئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ کا جوائنٹ سیکرٹری سطح کا افسر آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ دوران سماعت عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ سیف سٹی پراجیکٹ پر ساڑھے سات ارب روپے لاگت آئی، یہ ہمارے کس کام کا ہے؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے کیمروں میں گاڑیوں کے نمبر ہی نظر نہیں آرہے؟ خاص طور پر جو گاڑیاں لوگوں کو اٹھاتی ہیں ان کے نمبر ہی کیمرے میں نہیں آتے۔
پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں تھی اس لیے نمبر نظر نہیں آیا۔ جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ تو پھر پولیس کیا کررہی ہے؟ یہ ناکے کس لیے ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کہیں پولیس یونیفارم تو کبھی پولیس کی گاڑیوں میں لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ اس موقع پر عدالت نے نوٹ کیا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا۔ جس پر عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کر دیے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ اسٹنٹ اٹارنی جنرل اور ایس ایچ او سیکرٹری دفاع کو کیس سے متعلق آگاہ کریں۔