پاکستان کے مزدوروں کے استحصال پر چشم کشا تحقیق جاری

پاکستان کے مزدوروں کے استحصال پر چشم کشا تحقیق جاری
پاکستان میں کام کرنے والے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ مزدوروں پر ایک جامع تحقیق جاری کی گئی ہے۔

یہ تحقیق نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مرتب اور جاری کی ہے جو لاہور کی مقامی جامعہ میں بدھ کے روز ایک تقریبِ رونمائی کے بعد منظرِ عام پر آئے گی۔

اب تک حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق یہ تحقیق بنام No Room For Bargain  یعنی ‘بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں’ مزدوروں کے حوالے سے یہ راز افشاں کرتی ہے کہ دن بدن غربت کی دلدل میں دھستا چلا جاتا یہ طبقہ کیسے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔



اس جامع تحقیق میں قریب 141 لوگوں سے سوال جواب کیے گئے۔ ان میں سے 118 افراد ٹیکسٹائل کی صنعت میں پیشے سے مزدور، یونین کے رہنما اور مزدور کے حقوق کے لئے سرگرداں رہنے والے ہیں۔

73 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور عوام کو بتاتی ہے کہ کیسےمزدور شدید استحصال، ظلم و بربریت سے دوچار ہیں۔

بنیادی حقائق کچھ اس طرح عیاں کیے گئے ہیں:

کام کرنے کی جگہیں غیر محفوظ ہیں



تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مزدور جس جس جگہ کام کر رہے ہیں وہ نہایت غیر محفوظ ہیں اور اس امر پر سرکاری اور مزدوروں کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ کارخانے بہت چھوٹے ہوتے ہیں جہام مزدوروں کوکام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ٹھیکے داری نظام کا راج

یہاں مزدور آج تلک صرف زبانی رضامندی سے بھرتی کیا جاتا ہے جس کے سبب اس کے پاس وقت پڑنے پر رجسٹریشن کے کاغذات تک نہیں ہوتے۔ کاغذات اور کام کرنے کے ثبوت کی عدم موجودگی میں مزدور اپنے جائز حقوق اور سہولیات کا تقاضہ کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔



مزدور طے شدہ اوقات سے زیادہ کام کرنے پر مجبور

مزدور کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سرکار کی جانب سے طے شدہ اوقات سے زیادہ محنت کریں۔ اس سلسلے میں انہیں جائز معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔

کام کے دوران وقفہ اور تعطیلات سے محروم

مزدور دن بھر کام کرنے کے دوران کسی حاجت کے واسطے وقفہ بھی نہیں لے سکتے جبکہ وہ صحت کے حوالے سے جائز تعطیلات سے بھی محروم ہیں۔ یہ امر مزدور اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔



گند سے بھری جگہ کام کرنے پر مجبور

ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ مزدور گندگی میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں نہ ہوا کا انخلا ہوتا ہے اور نہ ہی صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے۔

خواتین مزدوروں کو شدید مسائل کا سامنا

اس صنعت میں عورتوں کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے اور ان کے ساتھ مستقل ظلم رواں رکھ جاتا ہے۔ یہاں اگر کسی خاتون کے حمل ٹھہر جائے تو اسے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ویسے بھی عورتوں کے لئے پاکستان کو دوسرا سب سے برا ملک قرار دیا گیا ہے۔

یونین سازی پر مسلسل قدغن

پاکستان میں مزدوروں کے لئے یونین سازی شجرِ ممنوعہ بن کر رہ گیا ہے اور یہاں ان یونینوں پر مسلسل قدغن لگایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں صرف 1.5 فیصد مزدور کسی نہ کسی یونین سے وابستہ ہیں جو آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں۔

اس جامع تحقیق کا مکمل متن لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسسز میں ایک کانفرنس کےدوران پیش کیا گیا۔