امریکہ میں ہوا ایک حادثہ اور ہماری مقتول کی جگہ قاتل سے ہمدردی کی روایت

امریکہ میں ہوا ایک حادثہ اور ہماری مقتول کی جگہ قاتل سے ہمدردی کی روایت
یوں تو آئے روز ہی سوشل میڈیا پر مختلف اقسام کے ٹرینڈز چلتے رہتے ہیں، یہ ٹرینڈز کبھی طنز و مزاح پر مبنی ہوتے ہیں تو کبھی کبھار کسی پر تنقید کا باعث بنتے ہیں، کبھی ان کے ذریعے کسی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو کبھی حوصلہ افزائی۔ بسا اوقات سوشل میڈیا ٹرینڈز سنجیدہ موضوعات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں اور مظلوموں کی داد رسی اور حکام بالا کی توجہ مسائل کی طرف دلانے کا سبب بنتے ہیں۔

گذشتہ دنوں بھی سوشل میڈیا پر ایک بے منطق اور لا یعنی قسم کی بحث کا آغاز تب ہوا جب کیمرون ہیرن نامی 21 سالہ نوجوان کو فلوریڈا کی عدالت نے 24سال قید کی سزا سنائی۔

یہ کیس تین سال پرانا ہے جب کیمرون ہیرن اپنی اٹھارویں سالگرہ پر اپنی والدہ کی طرف سے تحفہ میں ملنے والی بیش قیمت گاڑی سے اپنے دوست کے ساتھ ایک رہائشی علاقے کی سڑک پر غیر قانونی ریسنگ میں سڑک پار کرتی 24 سالہ جیسیکا ریزائنر اور اس کی 21 ماہ کی بیٹی لیلیا ریبنولٹ کو جان لیوا ٹکر ماری۔ اس فیصلے پر مشرق وسطیٰ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے سوشل میڈیا پر کیمرون ہیرن کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس کی سزا کو کم کرنے اورمعاف کر کے دوسرا موقع دینے کا مطالبہ کیا۔

بیشتر لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا ملزم نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا۔

بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہر باشعور آدمی کو یہ ادراک ہے کہ ایک ایسی سڑک ہے جہاں قانونی رفتار کی حد 45 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اگر وہاں کوئی 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلائے تو نقصان پہنچنا صاف ظاہر ہے۔ عدالت نے ارادتاً یا اتفاق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں سنایا بلکہ ہیرن کو بغیر لائسنس رہائشی علاقے میں غیر قانونی رفتار پر گاڑی چلانے اور دو لوگوں کو ٹکر مارنے کی سزا سنائی ہے۔

اس حالیہ بحث کے دوران اس قدر سفاکانہ جملے بھی سننے کو ملے ہیں کہ اتنی لمبی سزا دینے سے کون سا مقتولین نے واپس آ جانا ہے؟ پھر اس سزا کا کیا مقصد؟

یہ نظریہ ہماری قانون شکن اور مجرمانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور اگر اسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عدالت و انصاف، سزا و جزا کی اہمیت و ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ کسی قاتل کو پھانسی دینے سے نہ تو مقتول زندہ ہوگا اور نہ ہی کسی ریپسٹ کو سزا دینے سے کسی کی عزت و آبرو پہ لگنے والا داغ مٹ پائے گا۔ جانے انجانے میں ہماری یہ سوچ جرم کی پشت پناہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ مقام و مرتبے کو خاطر میں لائے بغیر یکساں انصاف ہمارے لئے ایک خواب ہے۔ سگنل پہ آدھ منٹ رکنا ہماری شان کے خلاف ہے اور پوچھنے پر ہم سینہ فخر سے چوڑا کر کے کہتے ہیں قانون تو بنایا ہی توڑنے کے لئے جاتا ہے۔

در أصل ہم ناانصافی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب کسی انصاف پسند ملک میں قانون کےمطابق فیصلہ ہوا تو ہمیں برا لگا کیونکہ وہ ہماری توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ قانون حُسن پرست نہیں بلکہ قانون ہمدردی کے جذبات سے مبرا اور بے لچک ہے۔

کارلا فے ٹکر کی سزائے موت پر بھی دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے اس کی سزا معاف کرنے کا مطالبہ کیا مگر اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز کو بھی رد کر دیا گیا۔ صرف اور صرف قانون کی پاسداری کی بنا پر آج بھی امریکہ جرائم کی بدترین شرح کے باوجود تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے جنت کے سہانے خواب کی مانند ہے۔

کم از کم اب ہمیں اس بات کا احساس ہو جانا چاہیے کہ قانون رنگ و نسل، ذات پات، مقام و مرتبے، علاقائیت، صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر انصاف کی فراہمی میں امتیاز نہیں برتتا۔ قانون کی سب کے لئے ایک ہی نظر ہے۔ انصاف سب لوگوں کے لئے یکساں ہے۔ قانون اس بات پر ڈھیل نہیں دیتا کہ قاتل مقتول سے بڑھ کر خوش شکل و خوش لباس ہے۔ جرم کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا کرے، خواہ بادشاہ ہو یا رعایا، قانون میں سب کے لئے برابری کے احکامات ہیں۔

عدل وانصاف کی بنیاد یہی ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی پوری سزا اور حقدار کو اس کا حق ادا کیا جائے۔ جب ایسا نہیں ہوگا تو مظلوم کے جذبہ انتقام کو ہوا ملے گی اور وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرے گا جس سے جرم در جرم سرزد ہوں گے اور معاشرہ بد امنی کا گڑھ بن جائے گا۔ حالیہ بحث کے دوران ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آیا کہ کیمرون ہیرن کی جگہ اگر کوئی سیاہ فام یا کوئی درمیانے خدوخال کا مالک باشندہ ہوتا تو کیا ہمارے دل میں اس کے لئے ہمدردی ابلتی؟ نہیں، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

خود ہمارے ملک میں ہی نجانے کتنے ایسے غریب لوگ کوئی جرم نہ ہونے پر بھی اپنی صفائیاں دیتے ہوئے تمام عمر جیلوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے گزار دیتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات میں سالہا سال عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے اپنی جمع پونجی، عزت اور جان سب لٹا دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان کے بارے میں سوچنے کی زحمت کی؟ اس طرح کے ہزاروں واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم لوگ ہمدردی کا تعین بھی ذات برادری، رنگ و نسل اور مقام و مرتبے کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ نتیجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ انصاف سب کے لئے یکساں ہے تو پھر ہم سالہا سال سے کیوں دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ صاحب اختیار لوگ جرم کے باوجود قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں؟ مقدمات ہی ختم کروا دیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات مقدمات کا آغاز ہی نہیں ہوتا۔ مقتولین کو دولت اور طاقت سے زور سے خاموش کروا لیا جاتا ہے۔

ہر بااختیار آدمی قانون کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کرتا ہے۔ اگر قانون اپنے حق میں نہیں تو اس میں ترامیم کروا کے اپنے مفادات پر مبنی قانون بنا لیا جاتا۔ طاقت کے نشے میں مست بااختیار لوگ اپنی مہنگی گاڑیوں تلے غریبوں کو روندنے کے باجود مقدمات سے بچ جاتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس راہگیروں کو قتل کرنے کے باوجود اپنے ملک بھیج دیا جاتا ہے۔ کیسے سینکڑوں لوگوں کے قاتل قانون کی آنکھ میں دھول جھونکتے ہوئے بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ کمزور کو ہتھکڑیوں میں کٹہروں میں پیش کیا جاتا ہے جب کہ طاقتور کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ۔ سر کے بال کالے سے سفید ہو جاتے ہیں، تاریخ پہ تاریخ ملتی ہے مگر انصاف نہیں ملتا۔

کیا ان سب حالات وواقعات کا علم ہونے کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف سب کے لئے یکساں ہے؟ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں؟

قانون سب کے لئے یکساں ہے مگر ان سب معاملات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون عدم عملدر آمد کا شکار ہے۔ اگر قانون پر عمل کیا جائے، تمام لوگ قانون کی پاسداری کریں اور عدلیہ قانون کا تحفظ کرے تو آنے والے چند سالوں میں ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔