اب زیادہ وقت نہیں ہے

اب زیادہ وقت نہیں ہے
پچھلے ہفتے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے چھ نکاتی معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ ان کے خطاب میں جو تلخی تھی اور وہ جس ادارے کی زیادتیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے وہ بہت واضع تھا۔ انہوں نے بلوچستان میں اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالات ایسے ہی رہے تو بلوچستان کے لوگ ایک مرتبہ پھر پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور نہ ہو جائیں۔

ابھی میں مینگل صاحب کا خطاب سن کر ہی پریشان ہو رہا تھا کہ آج مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما ریاض پیرزادہ کے خطاب نے پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کیونکہ وہ بات جو پہلے اشاروں کنایوں میں ہوتی تھی، مینگل صاحب اور پیرزادہ صاحب نے واضح الفاظ میں بیان کر دی۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ ہمارے ’مہربان‘ ملک کو کس سمت لے جارہے ہیں؟ کیا مشرقی پاکستان کے بعد ہم کسی اور سانحے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ کیا یہ ملک یونہی ایک کے بعد ایک سانحے کا سامنا کرتا رہے گا؟ کیا انہیں احساس ہے کہ ان کی پالیسیوں کے باعث لوگوں کے جذبات مشتعل ہو رہے ہیں؟ یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایک جیسے اقدامات کے نتائج بھی ہمیشہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

16 اکتوبر 2019 کو چھپے اپنے کالم ’اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بس کر دیں‘ میں عرض کیا تھا کہ ’’بنگالیوں کا مذاق اڑا کر ہم نتیجہ بھگت چکے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام ایک عرصے سے آپ کی زیادتیوں سے تنگ آ کر آپ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مولانا کا لانگ مارچ اور دھرنا صرف حکومت میں شراکت داری نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو سادہ الفاظ میں اسے بھولا بادشاہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ سلام ہے آپ پر کہ آدھا ملک گنوا کر بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ہر بار انتخابات کے بعد عوامی ایف آئی آر آپ ہی کے نام کٹتی ہے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد تو آپ نے حد ہی کر دی۔ آپ نے ہر طرح سے ایک منتخب وزیراعظم کو تنگ کیا۔ یہاں تک کے نوسربازوں سے دھرنے بھی کرائے لیکن جب تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد بھی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تو آپ نے پانامہ کیس پیدا کر لیا اور اس میں بھی جب کچھ نہ نکلا تو اقامہ پر وزیراعظم کو فارغ کروا دیا۔

پھر انتخابات میں جس طرح نتائج تبدیل کیے گئے وہ عوام کو ہضم نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے جو نعرے چھوٹے تین صوبوں میں لگتے تھے وہ نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر بھری عدالت میں لگ گئے۔ کوئی بھی محب وطن ان نعروں کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان نعروں کی نوبت کیوں آئی‘‘۔

اب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما ریاض پیرزادہ نے اسمبلی میں جو تقریر کی ہے وہ گہرے غور و غوض کا تقاضہ کرتی ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ورنہ ہمارا حال بھی فلسطینیوں کی طرح ہوگا۔ آپ نے اب بھی اپنی روش تبدیل نہ کی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔