خان صاحب! دیکھ لیں کہیں سو پیاز اور سو جوتے مت کھلائیے گا

خان صاحب! دیکھ لیں کہیں سو پیاز اور سو جوتے مت کھلائیے گا
اگر مہاراجہ پورس نے اپنے ہاتھیوں کے کان میں کہا ہوتا کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ تو وہ واپس نہ بھاگتے، اپنے ہی لشکر کو نہ روندتے اور سکندر کو فتح نہ ہوتی۔ پوٹھوہار میں نمک کی دریافت نہ ہوتی اور برصغیر میں بُلند فِشار خون کے مریض ناپید ہوتے۔ سترہویں صدی میں جب یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی جس کے خوف سے ۲۳ سالہ نیوٹن نے خود ساختہ تنہائی اختیا ر کر لی۔ اسی خود ساختہ تنہائی میں نیوٹن نے کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔ اگر اُس وقت کسی بھلے آدمی نے نیوٹن کو کہا ہوتا کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ تو کشش ثقل کی کتھا کھلتی اور نہ ہی میزائل ٹیکنالوجی پروان چڑھتی اور نتیجتاً دنیا ایک محفوظ جگہ ہوتی۔ نپولین کی شکست، سقوطِ بغداد، سوویت یونین کی شکست، سب کچھ اس کے بر عکس ہوتا اگر کسی حوصلہ مند نے بس یہ دلاسہ دیا ہوتا کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘۔

مگر ہماری قوم ہے کہ باوجود ایک عظیم لیڈر کے جو مسلسل بتا رہا ہے کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘، یہ قوم پریشان ہونے پے مُصر ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ کرونا وائرس کے ممکنہ افراد کی تعداد 4 ہزار سے تجاوز کر چکی ہےاور یہ بھی کہ ملک میں وینٹی لیٹرز کی کل تعداد 1700 سے بھی کم ہے مگر گھبرانے کی کیا بات ہے؟ ویسے بھی سکون صرف قبر میں ہی ہے۔

عجیب قوم ہے، جو لیڈر اس قدر مشکل حالات میں ان کو دلاسہ دے رہا ہے، اُس سے سوال کر رہے ہیں کہ ’خان صاحب! 26 فروری سے اب تک کتنے وینٹی لیٹرز منگوائے گئے؟‘ جواب: بھائی گھبراؤ نہیں ، بہتر ہو گا۔

سوال: کتنے ہسپتال تیار کیے گئے؟

جواب: بس آپ نے گھبرانا نہیں۔

سوال: کتنے ڈاکٹرز کو ٹریننگ اور کِٹس دی گئیں ہیں؟

جواب: یار ایک تو تم لوگ بہت جلد گھبرا جاتے ہو۔

سوال: کِتنی دوا ساز کمپنیوں کو کرونا کی پہلی ممکنہ دوائی ’ہائیڈروکلوروکوئن‘ کی تیاری کا حکم دیا گیا؟

جواب: بھائی تسلّی رکھو، اُتاولے نہ ہو۔

سوال: خان صاحب! بازار میں یہ دوائی پہلے ہی دستیاب نہیں۔

جواب: گھبراؤ نہیں یار!

سوال: خان صاحب! ہسپتالوں میں بھی نہیں ہے۔

جواب: تو کیا ہوا، ایسی بھی کیا گھبراہٹ۔

سوال: خان صاحب! مریض اچانک بڑھیں گے۔

جواب: ڈر گئے نا!

سوال: خان صاحب! سامان نا ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز کو خطرہ ہے، اگر پہلے ہی ہلے میں ڈاکٹرز بیمار ہو گئے، تو بیماروں کو کون دیکھے گا؟

جواب: یار ایک تو آپ لوگ حجتیں بہت کرتے ہیں، بھئی کہہ تو دیا کہ گھبراہٹ مسائل کا حل نہیں۔

سوال: خان صاحب! تمام ممالک لاک ڈاؤن کر چکے ہیں۔

جواب: بھائی تمہیں کسی کا احساس ہے؟ لوگ بھوکے مریں گے۔

سوال: خان صاحب! وہ دیہاڑی تو پہلے ہی میّسر نہیں، فاقے شروع ہو چکے ہیں۔

جواب: بھائی بہت جلد گھبرا جاتے ہو تم لوگ۔

سوال: خان صاحب! دیکھ لیں۔ جب آدھا ملک ہسپتالوں میں ہو گا تب لاک ڈاؤن کریں گے، تو بھوک سے بھی مریں گےاور بیماری سے بھی۔

جواب: یار گھبراؤ مت! مجھے پریشان نا کرو، مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔

سوال: خان صاحب! دیکھ لیں کہیں سو پیاز اور سو جوتے مت کھلائیے گا۔

جواب: بکو مت! بدتمیز، حوصلہ رکھو۔

آخری سوال: ملک کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز بغیر کسی سازوسامان کے بے دست و پا بیٹھے ہیں اور ڈپٹی کمشنرز اور سیکیورٹی ادارے یوں گاڑیاں اُڑاتے پھر رہے ہیں جیسے کرونا وائرس کو بندوق کی گولیوں سے مارا جائے گا۔ خان صاحب! تھوڑی سے گھبراہٹ ہو رہی ہے، گھبرا لیں؟