اٹلی اور ایران نے نالائقی کا ثبوت دیا۔ وزیر اعظم بھی ان کی مثالیں دے کر وہی کر رہے ہیں

اٹلی اور ایران نے نالائقی کا ثبوت دیا۔ وزیر اعظم بھی ان کی مثالیں دے کر وہی کر رہے ہیں
منگل کی شام وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی جس میں ان سے سخت سوالات بھی کیے گئے اور وزیر اعظم نے ان سوالات کے نہایت خندہ پیشانی سے جوابات بھی دیے۔ تاہم، رؤف کلاسرہ کے سوالات پر وزیر اعظم واضح طور پر سٹپٹائے ہوئے دکھائی دیے۔ رؤف کلاسرہ نے ان سے تین سوالات کیے تھے۔

  • پہلا سوال یہ تھا کہ جب وزیر اعظم کے علم میں تھا اور وہ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے 15 جنوری سے اس حوالے سے تیاریاں شروع کر دی تھیں تو پھر انہوں نے اس حوالے سے کوئی انتظامات کیوں نہیں کیے۔

  • رؤف کلاسرہ کا دوسرا سوال یہ تھا کہ چین میں موجود پاکستانی طلبہ کو حکومت نے واپس نہ آنے دیا جو کہ ایک اچھا فیصلہ تھا لیکن پھر یہی فیصلہ ایران کی دفعہ کیوں نہ دہرایا گیا اور تفتان سرحد پر اتنے خراب حالات کیوں ہونے دیے گئے؟

  • تیسرا سوال، سوال سے زیادہ تبصرہ تھا۔ رؤف کلاسرہ نے کہا کہ اس وقت وفاقی کابینہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کے طریقے سوچ رہی تھی اور کابینہ اجلاسوں کے ایجنڈے پر میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین پر بات ہو رہی تھی۔ میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرنا آپ کے ذہن میں تھا، میڈیا پر قدغنیں لگانا آپ کے ذہن میں تھا تو پھر کورونا کے لئے آپ کیسے وقت نکالتے؟


وزیر اعظم صاحب اس تبصرے پر جزبز ہوئے لیکن انہوں نے اس حوالے سے زیادہ وقت صرف کرنے کے بجائے یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ پاکستان کا میڈیا اتنا آزاد ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ہر وقت غلط الزامات لگاتا رہتا ہے اور اگر یہ کسی مغربی ملک میں ایسا کرتے تو ان کے چینل اور اخبارات بند ہو جاتے۔



انہوں نے کہا کہ حکومت روزِ اول سے کورونا وائرس کو دیکھ رہی ہے لیکن جو کچھ کر سکتی تھی، اس نے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین سے طلبہ کو اس لئے نہیں بلایا کیونکہ چین میں انتظامات بہترین تھے لیکن ایران میں ایسی سہولیات نہیں تھیں۔ تاہم، تفتان بارڈر کیونکہ بہت دور دراز ایک ویرانے میں ہے اور کوئٹہ سے بھی 700 کلو میٹر دور ہے، اس لئے وہاں حکومت سہولیات نہیں پہنچا سکتی تھی۔

اس بیانیے میں تین بنیادی مسائل ہیں۔ جن میں سے ایک میڈیا کے حوالے سے ہے جب کہ باقی دو کورونا وائرس پر ان کی توجیہات سے متعلق۔

میڈیا سے متعلق سوال یہ ہے کہ جھوٹ بولنے کا الزام لگا کر میڈیا پر قدغنیں لگانے کو کیسے جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے؟ یوٹیوب، فیسبک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے پر مجبور کرنا، ان سے لائسنس فیس مانگنا، کیا دنیا کے کسی اور ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ کیا امریکہ یا یورپ میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ اگر نہیں ہوتا تو پھر ہمارا میڈیا وہاں سے زیادہ آزاد کس حساب سے ہے؟

یاد رہے کہ اس تقریب میں وزیر اعظم صاحب نے یہ وضاحت دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ میر شکیل کو انہوں نے نہیں نیب نے گرفتار کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ تفتان بارڈر کے کوئٹہ سے 700 کلومیٹر دور ہونے سے اس بات کا کیا تعلق ہے کہ وہاں سہولیات موجود نہیں تھیں؟ یہ پاکستان کا ہی علاقہ ہے۔ افواجِ پاکستان کو اب بھی تو طلب کیا گیا ہے۔ تب بھی کہا جا سکتا تھا کہ وہ قرنطینہ کی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد دے۔ بات تو نیت اور اس سے بھی زیادہ وژن کی تھی۔ اگر وزیر اعظم کو یہ احساس ہوتا کہ یہ لوگ اب سے چند روز بعد ملک بھر میں پھیل جائیں گے تو کیا وہاں یہ سہولیات پہنچانا سستا تھا یا اب پورے ملک کی اکانومی کو بند کرنا کم خرچ ہے؟



ساتھ میں انہوں نے کہا کہ اٹلی کے حالات دیکھیں، اس کے مقابلے میں پاکستان بہت بہتر ہے۔ یہ کس قسم کی منطق ہے؟ ایک تو یہاں لوگوں کی ٹیسٹنگ نہیں کی جا رہی، اوپر سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہم باقیوں سے بہتر ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اٹلی ہو یا دیگر مغربی ممالک، انہوں نے کورونا کے پھیلاؤ کے معاملے میں بیحد نالائقی کا ثبوت دیا ہے اور ان سے تقابل کرنا اس سے بھی زیادہ بھونڈی دلیل ہے۔ یہاں تبلیغی اجتماعات پر، مذہبی اجتماعات پر، باجماعت نماز پر، جمعہ کی نماز پر پابندی تو لگائی نہیں جا رہی۔ کیا وزیر اعظم خدا نخواستہ اٹلی، ایران اور سپین جیسے حالات کا انتظار کر رہے ہیں؟

لگتا یہی ہے کہ انہیں اب بھی حقائق کے بارے میں درست بریفنگ نہیں دی جا رہی اور وہ بارہا ایسے خطابوں کے ذریعے حالات کو مزید سہل دکھانے کی کوشش میں ابتر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈان میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق جون تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ ہونے کا امکان بتایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس سلسلے میں فوری اقدامات کریں۔ ورنہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.