آج رؤف کلاسرہ صاحب کا کالم (تاریخ کے قیدی 3) پڑھنے کو ملا۔ پہلے پہل تو یقین نہیں ہوا کہ رؤف کلاسرہ صاحب جیسے بڑے صحافی تحقیق جن کا ہمیشہ شیوا رہا ہے اس طرح کا کالم لکھ سکتے ہیں جو تاریخ کے ساتھ ایک ستم تو کہلایا جا سکتا ہے، تاریخ بالکل نہیں۔ دوسرا یہ کہ تاریخ کا سرکاری ورژن چاہے جیسا بھی ہو لیکن آزاد صحافت سے تاریخ کے ساتھ اس طرح کے ستم کا گمان بالکل بھی نہیں تھا۔
باوجود اس کے کہ رؤف کلاسرہ صاحب کو سوشل میڈیا کے ذریعے مناظرے کا پیغام میں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے، چونکہ رؤف کلاسرہ صاحب کی مصروفیت آڑے آئے گی اس لئے “نیا دور“ کے ذریعے ہی رؤف کلاسرہ صاحب کے کالم میں تاریخی غلطیوں کی نشاندہی کا سوچا۔ دوسرا یہ کہ قارئین کو تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا جانا چاہیے۔
رؤف کلاسرہ صاحب کے کالم (تاریخ کے قیدی 3) کو جتنا میں سمجھا ہوں انہوں نے تین چیزوں پر زور دینے کی کوشش کی ہے
- پشتون تاج برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے
- پشتون نسل در نسل جنگ جو اور تشدد پسند واقع ہوئے ہیں
- پشتونوں کی “سبز رنگ“ سے عقیدت
رؤف کلاسرہ صاحب کی اس بات سے اتفاق بہرحال کیا جا سکتا ہے کہ پشتون آزادی چاہتے تھے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح کم و بیش پشتونوں کی 6000 سال کی تاریخ سے عیاں ہے کہ پشتونوں نے کبھی قابضین کی حکومت کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں؛ آزادی کیلئے اور اپنے اختیار کیلئے۔ لیکن آزادی کی اس کوشش کو جو رنگ رؤف کلاسرہ صاحب نے دینے کی کوشش کی ہے وہ بالکل ہی سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ رؤف کلاسرہ صاحب شاید یہ لکھنا چاہتے تھے کہ پشتونوں کی آزادی کی تحریک “دو قومی نظریے“ سے متاثر تھی۔ یہ ان کی خواہش ضرور ہو سکتی ہے لیکن یہ حقیقی تاریخ ہرگز نہیں کہلا سکتی۔
پشتونوں کی آزادی کی تاریخ کس رنگ میں رنگی ہوئی تھی اس کا پتہ “تاریخ” کی کتابوں سے لگایا جا سکتا ہے یا پھر متحدہ ہندوستان میں ہونے والے 1937 اور 1946 کے دو انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے اور ان انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والے نظریے سے یا پھر ریفرینڈم کی نوعیت سے۔
متحدہ ہندوستان میں اس وقت دو ہی نظریے آپس میں مدمقابل تھے۔ ایک نظریہ متحدہ ہندوستان کا خواہاں تھا جبکہ دوسرا نظریہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندو اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ ریاستوں کی بنیاد پر میدان عمل میں تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1937 اور 1946 کے دونوں انتخابات میں باچا خان بابا کے خدائی خدمتگار آل انڈیا کانگریس پارٹی کے اشتراک سے کلین سویپ کر کے برسر اقتدار آئے اور دونوں پارٹیوں کا منشور متحدہ آزاد ہندوستان تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبہ سرحد کے پشتون آزادی کے خواہاں تو تھے لیکن اس آزادی کے ہرگز نہیں جس آزادی کی طرف رؤف کلاسرہ صاحب اشارہ کر رہے تھے یا دوسرے لفظوں میں کسی مشروط آزادی کے خواہاں نہیں تھے۔
خدا خبر اس میں کسی کا کیا فائدہ پوشیدہ ہے کہ بہت سے لوگ ساری پشتون قوم کو دہشت گرد، تشدد پسند اور جنگجو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تاریخ سے ناآشنائی یا پھر کوئی جنگی اقتصاد؟ حالانکہ اگر 6000 سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ پشتون/افغان وطن ہمیشہ جارحیت اور دہشت گردوں کی ناکام کوششوں کا نشانہ تو رہا لیکن پشتون وطن سے کبھی دوسرے علاقوں، قوموں پر جارحیت نہیں ہوئی۔ وہ سکندر اعظم ہو، منگول ہوں، مغل ہوں، برطانوی گورے ہوں اور یا پھر ان کے بقایہ جات۔ ہمیشہ پشتون وطن جارحیت کا شکار رہا ہے، نہ کہ جارح۔
جس وقت کا ذکر رؤف کلاسرہ صاحب نے کیا ہے وہ تو وہ وقت تھا کہ سرخ پوشوں نے حلفیہ قسم اٹھا رکھی تھی کہ کسی صورت بھی تشدد پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ یہ وہی سرخ پوش پشتون تھے جنہوں نے 1930 میں قصہ خوانی میں 200 کے قریب انگریزوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں تو اٹھائیں لیکن تشدد پر آمادہ نہیں ہوئے۔ کسی بھی تاریخ دان یا ماہر نفسیات سے اگر پوچھ لیا جائے کہ جن کی فطرت میں تشدد ہو کیا وہ محض 18 سال کی تحریک سے اس قدر زبردست عدم تشدد کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟
https://www.youtube.com/watch?v=vSKAJpOC0Ro
جواب یقیناً یہی ہوگا کہ نہیں، ہرگز نہیں۔ جس وقت کا ذکر رؤف کلاسرہ صاحب نے کیا یعنی 1947 کے آزادی کے قریبی دن، ٹھیک ایک سال بعد جب بھابڑہ کے مقام پر 620 پشتون بہنوں اور بھائیوں کو پاکستان کے دفاعی اداروں نے گولیوں سے چھلنی کیا تب بھی پشتون عدم تشدد پر کاربند رہے اور کسی قسم کا تشدد ان کی طرف سے نہیں ہوا۔ تاریخ کے بدترین تشدد کو بھی عدم تشدد کے ذریعے ہی گزارا۔ ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد بھی کیا رؤف کلاسرہ صاحب یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ پشتون فطرتاً جنگجو اور تشدد پسند ہیں؟
سبز رنگ کی عقیدت کو جس طرح رؤف کلاسرہ صاحب نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس کا مطلب جو میں نے لیا وہ کچھ اس طرح ہے کہ مذہب اور عقیدے کی اندھی تقلید میں پشتون اتنے کھو چکے تھے کہ سبز رنگ کی عقیدت اتنی تھی کہ یہ بھی نہ دیکھ پائے کہ وہ سبز رنگ کس نے پہنا ہوا ہے؟ رؤف کلاسرہ صاحب کا یہ نقطہ نظر ایک بار پھر نہایت معذرت کے ساتھ تاریخی حوالے سے انتہائی ناقص ہے۔
مذہب سے عقیدت اور اندھی تقلید شاید وہاں دیکھنے کو تو ضرور دکھائی دے جہاں سیاست نہ ہو لیکن جہاں قوم سیاسی طور پر بیدار ہو اور آزادی کی جنگ میں میدان عمل میں ہو اور ایک سپر پاور سے مدمقابل ہو وہاں اس طرز کی اندھی تقلید کا کیا محض خیال بھی کیا جا سکتا ہے؟
https://www.youtube.com/watch?v=EDR3ChCf764
سبز رنگ کا جھنڈا تو مسلم لیگ کا بھی تھا اور وہ جھنڈا تھا بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں۔ پھر پشتونوں نے وہی عقیدت 1937 اور 1946 کے الیکشن میں سبز رنگ کے ساتھ کیوں نہیں دکھائی جس عقیدت کا ذکر رؤف کلاسرہ صاحب نے ایک عیسائی ماؤنٹ بیٹن کی سبز رنگ کی شرٹ کے ساتھ جتلانے کی کوشش کی ہے؟ کیا یہ مذاق تاریخی حوالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
گٓذشتہ 250 سال میں افغان وطن پر جو جو ستم ڈھائے گئے ان کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو وہ اگر آسان اور سلیس الفاظ میں لکھا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ پشتونوں سے پہلے پہل سیاست چھینی گئی پھر انہیں تاریخی حوالوں سے ہٹ کر جنگجو اور تشدد پسند دکھانے کیلئے ریاستی اور زور زبردستی باقاعدہ منظم سوچ کے ساتھ تشہیر کی گئی اور تیسرا یہ کہ انہیں مذہب کا اندھا مجاہد دکھانے اور انہیں باور کرانے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ جبکہ گذشتہ 70 سال میں اس روش میں اور بھی زیادہ قوت آ گئی ہے اور مزید منظم کوشش جاری ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جب بھی کہیں سے بھی کوئی بھی پشتون کو مذہب پر مر مٹنے والا، جنگجو، تشدد پسند یا بہادر کہتا ہے، پشتون قوم کا بچہ بچہ کہہ اٹھتا ہے اللہ خیر کرے پھر کسی جنگ کو شاید پشتون وطن پر تھونپا جا رہا ہے، شاید پھر پشتون کو کسی غیر کی جنگ کا ایندھن بنانے کا پروگرام ہے۔ بادل نخواستہ رؤف کلاسرہ صاحب بھی کہیں اس منظم سازش کا حصہ تو نہیں بن گئے؟
رؤف کلاسرہ صاحب آپکا کالم “تاریخ کے قیدی 3“ پڑھنے کا شرف ملا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کبھی زنجیروں میں جکڑی “قیدی تاریخ“ کے بارے میں بھی قلم اٹھا پاتے؟