عمران خان سرپرائز کیسے دیں گے؟ اپنے سارے ترپ کے پتے تو گنوا چکے، انھیں کس معجزے کا انتظار ہے؟

عمران خان سرپرائز کیسے دیں گے؟ اپنے سارے ترپ کے پتے تو گنوا چکے، انھیں کس معجزے کا انتظار ہے؟
سینئر صحافی مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس بطور چیف ایگزیکٹو ترپ کے کافی پتے تھے لیکن انہوں نے انھیں وقت پر نہیں کھیلا اور گنوا دیا۔ جبکہ عامر غوری نے کہا ہے وہ پریشان آدمی کی طرح باتیں کر رہے، آخر کس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں؟

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ تاش کی گیم کھیلنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ترپ کا پتہ کھیلنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ وقت گزر گیا تو اس کی اہمیت نہیں رہتی۔ وہ پھر ضائع ہو جاتا ہو، خواہ وہ ''اکا'' ہی کیوں نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ عمران خان کے پاس کافی ترپ کے پتے تھے لیکن انہوں نے اس میں سے کوئی بھی اپنے وقت پر نہیں کھیلا۔ اگر آج حکومت جلدی انتخابات کی بات کر رہی ہے تو اس میں بھی دیر ہو گئی ہے۔ وزیراعظم اپنے خلاف عدم اعتماد آنے سے پہلے الیکشن کال کرکے اسمبلیاں توڑ دیتے تو بات ان کے حق میں تھی کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیز کیساتھ الیکشن ہونا تھا اب جبکہ اپوزیشن کو اپنی فتح نظر آ رہی ہے تو وہ ان دونوں چیزوں کو ختم کراکے الیکشن کرائے گی۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے بعد اپوزیشن ای وی ایم اور اس جیسے تمام متنازع قوانین کو ختم کرائے گی اور نئی اصلاحات کرکے الیکشن میں جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم غیر جانبداری ختم کرنے کیلئے بھی کوئی ایکشن لے سکتے تھے کیونکہ بطور چیف ایگزیکٹو ان کے پاس پاورز تھیں کہ وہ  نیوٹرل کو ہٹا دیتے اور ان کی جگہ کسی اور کو لگا دیتے۔ لیکن یہ ترپ کا پتہ کھیلنے کا وقت عمران خان نے ضائع کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی کسی جماعت کے ساتھ پاور شیئرنگ کرکے ڈیڑھ سال حکومت کر سکتے تھے لیکن اس موقع کو بھی انہوں نے ضائع کیا۔ اگر وہ ایسا کر دیتے تو اپوزیشن میں تقسیم ہو چکی ہوتی۔

پروگرام میں شریک گفتگو مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مکس قسم کا opinion  سامنے آ رہا ہے۔ دونوں جانب کی رائے سن کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نیوٹرل ہے یا نہیں؟ نیوٹرل ہے تو کس قسم کی اور اگر نہیں ہے تو کس قسم کی ہے؟

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ابھی تو صرف اٹارنی جنرل کے دلائل ہی سننے میں آ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پہلے ہی بنچ کا حصہ تھے، لارجر بنچ میں ان دونوں معزز جج صاحبان کی شمولیت کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس کیساتھ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی موجودگی سے یہ بنچ بیلنس لگ رہا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس کی سربراہی کر رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ لگتا یہی ہے کہ آئین میں جو لکھا ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی کے تحت ہی آئے گا لیکن اٹارنی جنرل اپنے دلائل میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں اپنی پارٹی کے برخلاف ووٹ ڈالنے والوں کی تاحیات نااہلی کی بات کر رہے ہیں۔

عامر غوری کا کہنا تھا کہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کوئی سیاسی پتہ نہیں رہا۔ تو پھر ان کے پاس آخر کون سا پتہ ہے؟ اس پر صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں کیونکہ بہرحال وہ ابھی تک ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس لئے وہ کوئی نہ کوئی ایسا ایکشن کر سکتے ہیں جس کا تعلق شاید سیاست کیساتھ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کیہ ایک تو کہا جا رہا تھا کہ وہ شاید اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ دیں۔ دوسرا یہ تھا کہ جن لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑا ہے، جس کی وجہ سے ان کی گاڑی کا گئیر نیوٹرل ہو گیا تھا۔ وہ گاڑی کو دوبارہ گئیر میں ڈالنے کیلئے اگر فرض کیا کہ جس شخص کا نام لیا جاتا رہا ہے اس کو چھوڑ دیں اور کسی اور شخص کو سرپرائز دینے کیلئے اس کی تعیناتی کا اعلان کر دیں۔ لیکن فواد چودھری نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی کام نہیں ہونے جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک پریشان آدمی کا بیان ہے۔ ہر نیا دن عمران خان کو بند گلی میں لے کر جا رہا ہے۔ وہ ان پریشانیوں سے کس طرح نکلیں گے، انھیں اب کس معجزے کا انتظار ہے؟