سپریم کورٹ کا بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ سے آئے 190 ملین پاؤنڈ قومی خزانے میں منتقل کا حکم

عدالت نے نیشنل بینک پاکستان کو ہدایت دی کہ رقم وفاقی حکومت کو بھیجیں اور اس کی تصدیق رجسٹرار کو جمع کروائیں۔

سپریم کورٹ کا بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ سے آئے 190 ملین پاؤنڈ قومی خزانے میں منتقل کا حکم

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جمع کرائی گئی رقم سندھ اور برطانیہ سے آنے والے  190 ملین پاؤنڈ وفاقی حکومت کو دینے حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے 460 ارب روپے کے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے نیشنل بینک پاکستان کو ہدایت دی کہ رقم وفاقی حکومت کو بھیجیں اور اس کی تصدیق رجسٹرار کو جمع کروائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر قیادت 3 رکنی بینچ کے حکم کے مطابق یہ رقم وفاقی حکومت کو واپس کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے متفق ہے کہ یہ رقم سپریم کورٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی لہٰذا کل 65 ارب روپے میں سے بحریہ ٹاون کی جانب سے جمع کرائے گئے 30 ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے اور بیرون ملک سے آئے 35 ارب روپے وفاقی حکومت کو جائیں گے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ بیرون ملک سے بھی 35 ارب روپے سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں آئے تھے۔ وہاں سے رقم بھیجنے والوں کو عدالت نے نوٹس بھیجنا لازم سمجھا۔

سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ ملک ریاض حسین کی جانب سے متفرق درخواستیں میں بتایا گیا ہے کہ نیب بھی معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اس عدالت کے لیے مناسب نہیں ہو گا کہ نیب میں زیر التوا معاملے پر آبزرویشن دے۔ ملک ریاض کی متفرق درخواست نمٹائی جاتی ہے۔

حکمنامے میں بتایا گیا کہ وکیل بحریہ ٹاؤن نے سروے آف پاکستان کی رپورٹ پر اعتراض اٹھا دیا۔ وکیل بحریہ ٹاؤن نے اپنے اعتراضات دائر کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سروے کے دوران بحریہ ٹاؤن کی اپنی سروے ٹیم بھی ساتھ موجود تھی، وکیل بحریہ ٹاؤن نے بارہا کہا زمین پوری نہ ملنے پر ادائیگیاں روکیں۔

حکمنامے میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا باہمی رضامندی سے ہونے والا معاہدہ جو عدالتی حکم بن چکا اس پر کوئی فریق خود سے عمل روک سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب منفی میں ہی ہے۔

کئی سال تک جلد سماعت کی درخواست دائر نہ کرنا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے لیے کیا گیا۔ بظاہربحریہ ٹاؤن زیادہ زمین پر قابض ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے ادائیگیاں نہیں روکیں بلکہ مزید زمین پر بھی قبضہ کیا اور ہماری رائے میں یہ متعلقہ افسران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا جبکہ افسران عوام کے خادم ہیں ان کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔

حکمنامے میں توقع ظاہر کی گئی کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جو قانونی ایکشن کی یقین دہانی کروائی اس پر عمل ہو گا۔

عدالت نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے الاٹیز کا ریکارڈ حکومت کے پاس نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور حکمنامے میں لکھا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ لوگ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے عمر بھر کی جمع پونجی لگاتے ہیں اور سب خرچ کرنے کے بعد لوگ ڈویلپر کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔

حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا کہ صرف بحریہ ٹاؤن یا سندھ حکومت سے متعلق یہ آبزرویشن نہیں۔ توقع ہے کہ تمام حکومتیں آلاٹیز کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کریں گی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ حکومت کے پاس آلاٹیز کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کو 7 سال میں 460 ارب روپے ادا کرنا تھے تاہم وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق زمین مکمل نہ ملنے پر ادائیگیاں روکی گئیں اور ان کا کہنا ہے کہ جو زمین دی گئی اس پر ہائی پاور بجلی کی تاریں گیس پائپ لائنز، نالے اور کئی گوٹھ ہیں۔