انتخابی وعدے: 'جب ان سیاستدانوں سے عوام وعدوں کا حساب مانگے تو یہ باہر بھاگ جاتے ہیں'

انتخابی وعدے: 'جب ان سیاستدانوں سے عوام وعدوں کا حساب مانگے تو یہ باہر بھاگ جاتے ہیں'
آزادی پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان میں کئی دور ایسے گزرے جس میں عوامی حکومت رہی تو کبھی مارشل لاء ملک میں رائج رہا۔ لیکن ان چیزوں سے پاکستانی عوام کو کبھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ ملک میں کون حکمران جماعت ہے کیوں کہ ان حکمرانوں نے عوام کو اتنا سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں دیا وہ ہمیشہ اپنی روز مرہ ضروریات زندگی اور بنیادی سہولیات جیسا کہ صحت روزگار تعلیم اور بچوں کی پرورش میں ہی الجھا رہے۔ اسے آپ سابقہ حکمرانوں کی سازش کا حصہ بھی سمجھ سکتے ہیں حالانکہ کہ یہ سب سہولیات کسی بھی جمہوری حکومت کی ذمہداری ہوتی ہے کہ وہ صحت تعلیم روزگار جیسی بنیادی چیزیں عوام کی چوکھٹ تک پہنچائے پاکستان میں بہت سی ایسی سیاسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے روٹی کپڑا اور مکان موٹر وے ڈیم ایٹم بم جیسی ریاستیں پراپرٹی کو بنانے کا سہرا اپنے سر پر چڑھنے کی کوشش کی ہر تقریب میں یہ سیاستدان بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے پر سیاسی حملے کرتے ہے اور پس پردہ یہ آپس میں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔  ایسے نام نہاد سیاستدان جلسوں میں تقریری کرکے پاکستانی قوم کا خون گرما کر ان سے ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب قوم ان سے ان کی چوری کا حساب مانگے تو یہ لوگ پاکستان سے باہر بھاگ جاتے ہیں۔
2018 الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے جلسے جلوس اور لانگ مارچ کے دوران پاکستانی عوام سے بھاری بھرکم وعدے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔  ان وعدوں میں سے چند وعدے ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر ملک سے کرپشن کا خاتمہ لوٹی دولت پاکستان میں واپس لانا اور الیکٹرونک ووٹنگ بھی شامل تھے۔  موجودہ وقت میں ایک کروڑ نوکریاں دینا تو دور کی بات لوگوں کو اپنی نوکریاں بچانا ہی مشکل ہو رہی ہیں اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان رکشہ ٹیکسی اور ریڑھی لگانے پر مجبور ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی کچھ ایسے انتظامات نظر نہیں آ رہے کہ حکومت وقت عوام کے لیے ایک کروڑ نوکریوں کی جگہ 10 نوکریاں بھی پیدا کر سکے اور مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب کا دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی دوبھر ہوگیا ہے موجودہ حکومت نے اپنے تین سال پورے کر لیے ہیں یہ وعدے کب پورے ہوں گے یہ تو اللہ ہی جانے لیکن آج کل ملک میں الیکٹرونک ووٹنگ کے حوالے سے حکومت پاکستان نے ایک ووٹنگ مشین متعارف کروائی ہے جس کی چرچا پاکستان کے ہر مکتب فکر سیاستدان اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سنی جا سکتی ہے۔ حکومتی وزراء اس مشین کو اپنی بغل میں دباۓ بڑھ چڑھ کر ٹی وی پروگرامز اور اپنی پریس کانفرنس میں اس مشین کے فضائل بیان کرتے اور عوام باآسانی اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ ڈال سکتی ہے مطلب کہ عوام کو باشعور ثابت کرتے نہیں تھک رہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں آئی ٹی کی دنیا سے نت نئی خامیاں ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہے حکومت نے عوام کو پچھلے تین سال نواز شریف صاحب کے پیچھے لگائے رکھا اور اب بلدیاتی الیکشن قریب آتے ہی پاکستانی عوام کو اس مسئلے پر الجھا دیا ہے۔ اس وقت عوام کا مسئلہ الیکشن کی شفافیت نہیں بلکہ کہ تعلیم صحت اور روزگار ہے جس کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے کہ وہ ہر پاکستانی کی دہلیز تک یہ بنیادی سہولت مہیا کرے پاکستان میں وزارت صحت کے ماتحت چلنے والے ہسپتالوں کا اتنا برا حال ہے کہ کوئی بھی اپنے پیارے کو ان ہسپتالوں میں لے جانے سے کتراتا ہے ہسپتالوں کے ویٹنگ روم میں گندگی سیوریج کے ٹوٹے پھوٹے پائپوں سے گندا پانی بہنا معمولی بات ہے- اسی سے ملتے جلتے حالات ہمارے سرکاری اسکولوں کے ہیں جہاں پر طالبات کلاسوں میں بیٹھنے کے لیے کرسیوں پینے کے صاف پانی اور بجلی جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہے گائے بھینس گدھے کلاس میں باندھنا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور باتھ روم میں اتنا گند ہوتا ہے کہ وہاں جانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کرتا سکتا اگر کوئی طالب علم مجبوری میں چلا بھی جائے تو باتھ روم بھی پانی کی سہولت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ وہ چند ضروری اور بنیادی چیزیں ہیں جو ہر جمہوری نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی دہلیزوں تک یہ سہولیات پہنچائے۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں نے کبھی عوامی ایشوز کو توجہ نہ دیں جس پارٹی کی حکومت آئی وہ پچھلی حکومت پر ہی کیچڑ اچھال کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتا نظر آیا موجودہ حکومت کے وعدے کسی صورت پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے اب عوام کو خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان حکمرانوں کی عدالتی پیشیوں اور جلسے جلوسوں میں ان کے آگے پیچھے نعرے لگاتے ہیں یا اپنا بنیادی حق سیاستدانوں سے لینے کے لیے کوئی جدوجہد کرتے ہیں۔