قصہ چوکیداروں اور ایک یتیم کے درمیان لڑائی کا

قصہ چوکیداروں اور ایک یتیم کے درمیان لڑائی کا
ہمارے دادا عبدالغفار کے دو دوست تھے ذوالفقار اور مجیب۔ ان تینوں کی ایک چوہدری کیساتھ دوستی تھی۔ تینوں پیدائشی نواب تھے کیونکہ جس علاقے  میں رہتے تھے وہ قدرتی معدنيات سے مالا مال تھا۔ چوہدری صاحب جو ایک سیکیورٹی کمپنی کے مالک تھے بظاہر بہت عاجز و نیک دل لیکن مکاری اور کمینے پن میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ کسی نہ کسی طریقے سے ان دوستوں کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے مجیب کے ہاں اپنے چوکیدار کو چوکیداری کے لیے بھیج دی مجیب صاحب کو  ورغلایا کہ آپ کے وسائل پر دشمن نے حملہ کرنے اور علاقے کو قبضہ کرنے کا پلان بنایا ہے لہذا میرا چوکیدار آپ کے علاقے کی نگرانی کرے گا اور آپ کی ہر قسم حفاظت کریں گا۔

کیونکہ ہماری جیسی سیکیورٹی کپمنی پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ یعنی یہ نمبر ون سیکیورٹی کمپنی ہے۔ مجیب بہت خوش ہوئے اور فوراً ہاں کردی لیکن کچھ عرصے بعد مجیب کو پتہ چلا کہ چوکیدار کا مقصد چوکیداری نہیں بلکہ علاقہ پر کنٹرول حاصل کرناہے لہذا انہوں نے جلد ہی وہ 90 یا 93 چوکیدار جو چوہدری نے بھیجے تھے مار پیٹ کر واپس بھیج دیئے۔ چوہدری اور مجیب کی دوستی ختم ہوگئی۔ چوہدری نے دوستی ختم کرنے کا قصوار چوکیداروں کے ہیڈ  نیاز احمد کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے ذوالفقار کو قصوروار  ٹھہرایا اور کئی دن بعد چوکیداروں کے ذریعے ذوالفقار کو مار ڈالا۔ ذوالفقار کو مارنے کے بعد ان کے بچوں کو کنٹرول کرنا چوہدری  اور ان کی کمپنی میں کام کرنے والوں چوکیداروں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا جلد ہی چوہدری اور چوکیداروں نے ذوالفقار کے علاقہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اب چوہدری عبدالغفار(ہمارے دادا) کے علاقہ جو مجیب کے علاقے سے زیادہ قدرتی معدنيات سے مالا مال تھا قبضہ کرنا چاہتا تھا اس وقت ہمارے دادا عبد الغفار کا انتقال ہوا تھا اور  باباجان چوہدری اور ان کے چوکیداروں کے مکاری سے لا علم تھے۔

چوہدری نے باباجان کیساتھ تھوڑے  بہت رابطے میں تھے کھبی کھبار ایک دوسرے کے حال احوال پوچھتے تھے  وقت گزرتا رہا کہ ایک دن ہمارے علاقے کے قریب دو فریقين کے درمیان جھگڑا ہوا۔ چوہدری جھگڑے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے باباجان اور علاقے کے لوگوں کو چوکیدار بھیجنے کی آفر کی کہ کہیں یہ جنگ آپ کے علاقے تک نہ پہنچ سکیں۔ لہذا میرے چوکیدار آپ کے علاقے کی نگرانی کریں گے۔ کچھ دن بعد چوہدری کے چوکیدار آگئے اور ہمارے علاقے میں ڈیرہ ڈال لیا۔ مجیب کیساتھ جوکھیل کھیلا تھا وہی کھیل یہاں کھیلنا شروع کیا یعنی معدنيات اور وسائل پر قبضہ کرنا۔ علاقے کے لوگ اپنے خون پیسنے کی کمائی سے چوکیداروں کے لیے سازوسامان اور خوراک  کا بندوں بست کرتے تھے لیکن جلد ہی چوکیدار اپنی اوقات بھول گئے اور رفتہ رفتہ  اتنے بعدمعاش ہونے لگے کہ اب ہماری تو کیا چوہدری کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے تھے اب چوہدری کو بھی کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔ علاقے کے لوگوں کے خون پیسنے کی کمائے ہوئے پیسوں سے چوکیداورں نے ایک فیکٹری لگائی فیکٹری کی ذمہ داری ہمارے  علاقے کے مولوی مولانا سمیع صاحب کو سونپ دی۔  فیکٹری کی آلودگی سے علاقے کا ماحول بہت گندا ہوا اور کئی بیماریاں پھیلنے لگی بیماریوں سے علاقے کے بوڑھوں بچوں سمیت نوجوان طبقہ بہت متاثر ہونے لگا۔

درجنوں جوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھوگئے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے کئی خاندان علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے جس سے بچوں کی تعليم اور بڑوں کا روزگار بھی متاثر ہوا  وقت گزرتا رہا لیکن اب تک کسی میں چوہدری کے کمپنی کے چوکیداروں کیخلاف شکایت کرنے کی جرات نہ تھی ایک دن ہمارے علاقے کے ایک یتیم عاجز و ملنگ نوجوان جس کی کوئی فیملی بیک گراؤنڈ نہیں تھا حتیٰ کے زیادہ تر لوگ جانتے تک نہیں وہ چوکیداروں کیخلاف اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور چوہدری کو چوکیداروں کیخلاف شکایت کرنا لگا انہوں نے چوہدری کو چوکیداروں کے بارے میں سب کچھ بتادیا مثلاً آپ کے چوکیدار جو  آپ نے چوکیداری کرنے کے لیے بھیج دیا ہے اس نے یہاں فیکٹری بنائی جس سے علاقے کا ماحول آلودہ ہوا۔ ہماری فصلیں تباہ ہوگئیں۔ بیماریاں لگے بوڑھے بچے اور نوجوان سب کو اذیت سے دوچار کئے ہیں بچے معذور ہوئے نوجوانوں کا مستقبل نیزے کے نوک پر ہے تعلیم، روزگار وغیرہ سب متاثر ہوگیا ہے۔ لہذا آپ اپنے چوکیداروں کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے زندگی سے نہ کھیلیں ہمارے کاموں میں ٹانگ نہ اڑائیں چوکیداروں کو یہ باتیں برداشت کرنا گوارا نہیں گزرا اب وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس نوجوان کو چُپ کرانا چاہتے تھے۔

چوکیدار جو علاقے کے کئی حصوں اور وسائل پر قابض ہوچکے تھے اپنے آپ کو مالک سمجھتے تھے۔ کیونکہ اب وہ فیکٹریوں کے مالک اور معدنيات اور وسائل پر قابض ہونےکی وجہ سے چوہدری بھی ان کے سامنے بے بس تھے اب مقابلہ چوکیداروں اور ایک یتیم کے درمیان شروع ہوا دوسری جانب علاقے کے کئی لوگ جو ہمارے ابا واجداد کے رشتہ دار تھے چوکیداروں نے ڈریا دھمکایا ایک دو درجن لوگوں کے بچوں کو گرفتار کرکے جان سے مارنے کی دھمکی دی اور کچھ لوگوں کو تھوڑے بہت پیسے اور مراعات دیکر اپنے ساتھ شامل کیا۔ ہمارے باباجان جو اس وقت کمزور  اور زندگی اور موت موت کے کشمکش میں تھے زیادہ وقت بستر میں ہونے کی وجہ سے چوکیداروں کی مکاری سے بے خبر تھے جب میں نے چوکیداروں کا سارا قصہ سنایا۔  باباجان نے ایک ٹھنڈی آہ  بھری اور مجھے بتایا کہ بیٹے جیسے بھی تھی ہماری زندگی گزر گئی  لیکن اس  یتیم بچے کیساتھ کھڑے ہوکر اپنے حقوق کے لیے لڑیں۔ یہ آپ کے لیے لڑرہا ہے اور ان چوکیداروں کو وہ سبق سیکھائیں جہ عمر بھر یاد رکھیں۔ یہ علاقے اب ان قاتلوں اور قبضہ خوروں سے واپس لینے ہیں کیونکہ اب ان ظالم چوکیداروں کے خلاف علم بغاوت  بلند کرنے کا وقت آچکا ہے۔