کرونا کی وبا نے ساری دنیا کو ایک ایسے خوف میں مبتلا کر دیا ہے جس سے چھٹکارا فی الحال کسی کو نظر نہیں آ رہا۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں اس نے اپنے خونی پنجے نہ گاڑے ہوں۔ امریکہ بہادر جیسا ملک بھی اس وبا کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ بڑے بڑے کاروباری ادارے تباہ ہو گئے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک جو اپنے آپ کو ترقی پذیر ممالک سے افضل سمجھتے تھے اس تباہی پر نوحۃ کناں ہیں۔
اس کائنات کی تخلیق کرنے والے نے اپنی حاکمیت کا جس طرح اظہار کیا ہے انسان اس کے آگے خود کو محض مجبور محسوس کر رہا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے تا دم تحریر ایک ہی حل سامنے آیا ہے اور اس کے مطابق ان تمام ممالک نے جہاں اس وبا نے تباہی مچائی ہے وہاں لاک ڈاؤن ہو گیا ہے۔ جہاں جہاں اس میں سستی کا مظاہرہ کیا گیا وہاں صورتحال قابو سے باہر ہوتی چلی گئی۔ امریکہ، اٹلی اور سپین اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ آج وہاں اموات کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ بہتر معاشی حالات اور طب کے بہترین سہولیات کے باوجود ان کی بے چارگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں مملکت خداداد کی جہاں پر 2018 میں ایک سرکس لگایا گیا تھا، جس کے نتائج قوم معیشت کی تباہی کی صورت بھگت رہی تھی کہ رہی سہی کثر کرونا نے پوری کر دی۔ ناتجربہ کار اور نااہل حکمرانوں نے معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ ایک طرف اس وبا کی تباہی سے بچنے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
اس وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈاکٹر حضرات اپنی جانوں پر کھیل کر انسانی زندگیاں بچانے میں مصروف ہیں اور حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ حالات اچھے نہیں ہیں لہذا بازار کھولنے اور تراویح کی اجازت دینے پر نظر ثانی کی جائے لیکن حکومت کے گماشتے ان ڈاکٹر حضرات کا تمسخر اڑانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات تو اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ کرونا کی یہ وبا جہاں عوام کیلئے قہر الہی بن کر نازل ہوئی ہے وہاں اس حکومت کیلئے باعث رحمت ثابت ہوئی ہے۔
تمام باخبر حلقے اس بات سے آگاہ تھے کہ اس حکومت کا مارچ میں جانا ٹھہر چکا تھا لیکن کرونا کی وبا نے وقتی طور پر ہی سہی اس حکومت کو سہارا دے دیا ہے۔ اب آتے ہیں اس طرف کہ حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
اگر بغور دیکھا جائے تو اس حکومت کے پاس آپشنز ختم ہو چکے ہیں کیونکہ اس وقت حکومت ایک طرف تو حزب اختلاف سے محاذ آرائی میں مصروف ہے اور دوسری جانب حکومت کے اندر سے ہی مخالفانہ آوازیں آنا تیز ہو گئی ہیں۔ جہانگیر خان ترین کو اگر تحریک انصاف کا گاڈ فادر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کون نہیں جانتا کہ دوسری جماعتوں کے مضبوط امیدوار کس کی 'محنت' سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ سب ہی واقف ہیں کہ نمبر پورے کرنے کیلئے کس کا جہاز پورے پاکستان کے چکر لگاتا رہا اور کس قیمت پر لوگ حکومت کا ساتھ دینے پر تیار ہوئے۔ جہانگیر خان ترین ایک آدمی کا نام نہیں بلکہ ایک مضبوط حلقے کا نام ہی اور اس حلقہ کا نام ہے جنوبی پنجاب جبکہ جنوبی پنجاب کے علاوہ بھی ان کے نام پر بیعت کرنے والے کافی 'مرید' موجود ہیں۔
اہل نظر کہہ رہے ہیں کہ فارنزک رپورٹ آنے کے بعد جہانگیر ترین پر ہاتھ ڈالا گیا تو اس حکومت کا قائم رہنا ناممکنات میں سے ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو ادویات، آٹا، چینی اور پاور سیکٹر میں مال بنانے والے سارے وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے حضرات ہیں۔ اسمبلی میں حکومت کی عددی اکثریت بہت معمولی ہے اور دوچار دانے کھسکنے سے ہی اس حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔ اگر رپورٹ آنے کے بعد ملوث لوگوں کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو بھی معاملہ ہاتھ میں نہیں رہتا کیونکہ جنہوں نے رپورٹ لیک کی ہے وہ اسے منطقی انجام تک ضرور پہنچانا چاہیں گے۔ یعنی آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔
لاک ڈاوؑن کے مسئلہ پر بھی حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ اگر مکمل لاک ڈاؤن کرتی ہے تو بے روزگاری سے تنگ آئے لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے اور اگر نرمی کرتی ہے جیسا کہ فی الحال کی بھی ہے تو اس وبا کے پھیل جانے کے امکانات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم یا حکومت میں شامل دیگر حضرات کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہے یقیناً ہے لیکن سانپ سیڑھی کے اس کھیل سے باہر آنا اب ان کے بس میں نہیں۔