پنجاب کی پنجاب کے ساتھ محاذ آرائی اور ون یونٹ کے خدشات کیا رنگ لائیں گے؟

پنجاب کی پنجاب کے ساتھ محاذ آرائی اور ون یونٹ کے خدشات کیا رنگ لائیں گے؟
تاریخ بھی بڑی ظالم ہے۔ ہر لمحہ، ہر پل، ہر جملہ اس کے پنوں میں ریکارڈ ہو جاتا ہے اور وقت پڑنے پر دروغ گوئی کرنے والوں کو سب یاد دلا دیتا ہے۔

عمران خان نے تازہ ارشادات میں فرمایا ہے کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر پنجاب اور خیبر پختوںخوا اسمبلیاں توڑ دیں۔ ادھر سپریم کورٹ میں ان اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کرانے کے مقدمے میں سماعت اور مذاکرات کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر ون یونٹ قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

واپڈا مرحوم اپنی کرپشن پارک کرنے کے لئے ہمیشہ لائن لاسز کا سہارا لیتا تھا، اسی طرح سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور جھوٹ چھپانے کے لئے موقعے اور کسی 'سکیپ گوٹ' یعنی قربانی کے بکرے کی تلاش رہتی ہے۔ اپنے عمران خان صاحب جس تواتر کے ساتھ یوٹرن لیتے اور بہانے تلاش کرتے ہیں، انہیں ہر لمحہ اس بکرے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ ان کے تازہ ارشادات نے 1970 کی دہائی میں اطہر شاہ خان جیدی صاحب کے باکمال ڈرامے 'انتظار فرمائیے' میں اسماعیل تارا مرحوم کا ایک ڈائیلاگ یاد کرا دیا۔ وہ کہتے ہیں؛ 'پہلے اس نے میرے جبڑے پہ مکا مارا، پھر میں نے اس کے جبڑے پہ مکا مارا'۔ عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں جنرل باجوہ کے کہنے پر توڑیں۔ بقول شاعر؛

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

ذرا تاریخ میں چلتے ہیں۔ خیر یہ پرانی تاریخ بھی نہیں، صرف 14/15 ماہ پرانی بات ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع ہوتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کا کیا رویہ تھا؟ میر جعفر اور میر صادق کون تھے؟ نیوٹرل اور جانور کسے کہا گیا؟ یہ درخواست کس سے کی گئی کہ آصف زرداری اور پی ڈی ایم سے کہہ کر تحریک عدم اعتماد واپس کروا دیں، پھر ہم الیکشن پر بات کر لیتے ہیں؟ اور پھر کرپشن اور ملک دشمنی سمیت کیا کیا الزامات عائد نہیں کئے گئے!

انگریزی محاورے کے مطابق ڈیولز ایڈووکیٹ بنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا جنرل باجوہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے خان صاحب سے دو صوبائی اسمبلیاں تڑوانے کی پوزیشن میں تھے؟ اس دعوے کی ٹائم لائن بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل باجوہ تو 27 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو گئے تھے جبکہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی، اس کے دو تین روز بعد خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہوئی۔ یعنی جس جنرل باجوہ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے، وہ 27 نومبر 2022 کے بعد بھی مرا ہاتھی سوا لاکھ کی مانند تمام گالیاں کھانے کے بعد بھی عمران خان صاحب سے اسمبلیاں تڑوانے کا فیصلہ کروانے کی پوزیشن میں تھے۔ غالبؔ نے کہا تھا؛

؎ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

اب کیا کہیے سوائے اس کے کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ لیکن خان صاحب بہرحال لیڈر ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے عقیدے کی طرح راسخ۔ وہ ان کی ہر غلطی، گناہ، یو ٹرن اور ہر چیز کو معاف کرنے اور ایک ہی بات بار بار بدل کر اختیار کردہ نئے مؤقف کو دل و جان سے قبول کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جس سیاسی رہنما کو ایسے چاہنے والے میسر ہوں وہ کیونکر سیاسی بے راہروی کا شکار نہیں ہو گا؟ ویسے ان کے چاہنے والوں میں صرف عام لوگ تو نہیں ہیں، ریٹائرڈ حضرات کے ساتھ ساتھ اب تو ججز کی فیملیز کے نام بھی آ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ساس صاحبہ تک کی آڈیوز آ رہی ہیں۔ تازہ ویڈیو لیک کے نتیجے میں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عظمیٰ ضد میں کیوں ہے! جبکہ دوسری جانب راج ہٹ بھی پوری شدت سے قائم ہے! لیکن ایک سیاسی سوال بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ صرف پنجاب میں ہی الیکشن کیوں؟

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عید سے دو روز پہلے ہونے والی اپنی پریس کانفرنس میں ایک خدشے کا اظہار کیا تھا گو کہ انہوں نے واضح بات نہیں کی لیکن اس خدشے کا تعلق بھی اسی سوال سے ہے کہ کیا آئین 90 روز میں الیکشن کی پابندی صرف پنجاب کے لئے ہی عائد کرتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر ون یونٹ نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بلاول بھٹو نوجوان مگر سنجیدہ سیاست دان ہیں۔ انہوں نے وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی کے طور پر اپنا بہت اچھا امیج بنایا ہے۔ اس لئے ان کے اس بیان کا بغور جائزہ لینا اور اس کا تناظر دیکھنا بھی ضروری ہے۔

بلاول دودھ کے جلے ہیں، اس لئے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے چند دانش ور اسے سندھ کارڈ کے طور پر دیکھیں اور شاید ایسا سمجھنا غلط بھی نہ ہو لیکن اگر پاکستان میں قائم ہونے والے پہلے ون یونٹ کے نتائج کا جائزہ لیں تو پنجاب پر جو سیاسی الزامات لگے، چھوٹے صوبوں میں جو احساس محرومی پیدا ہوا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ون یونٹ ہی تھا جس کے ذریعے یہ تاثر پختہ ہوا کہ پنجاب ملک کے تمام وسائل اور نوکریوں پر قابض ہے۔ چلیں اس وقت تو ملک میں شخصی حکمرانی کا دور تھا مگر اب تو جمہوریت ہے۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اگر پچھلے ساڑھے 4 میں سے ساڑھے 3 سال اور اس سے پہلے نواز شریف کا دور حکمرانی بھی دیکھیں تو یہ کوئی بہت جمہوری انداز حکمرانی نہیں تھا۔ خاص طور پر عمران خان حکومت کا دور تو اس حوالے سے یادگار رہا۔ اس دور میں صدارتی نظام سے چینی ماڈل لانے تک کیا کیا کوششیں نہیں ہوئیں!

اس عرصے میں جس طرح سندھ اپنے حقوق چھینے جانے کے حوالے سے شکوہ کناں رہا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب تو بلاول خود موجودہ حکومت کے نفس ناطقہ ہیں پھر کیا مسئلہ ہے؟ اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ اس بنچ کی کمپوزیشن کیا ہے جس میں پنجاب میں انتخابات والا کیس زیر سماعت ہے اور پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو معطل کرنے والے بنچ کو دیکھیں، ایک بھی جج سندھی سپیکنگ یا بلوچستان سے نہیں ہے۔

پاکستان جیسے وفاق میں جس کی اکائیاں بھی بہت سی زبانیں بولنے والے اور مختلف بود و باش کے حامل لوگوں سے مل کر تشکیل پاتی ہیں، کیا وہاں اس قسم کا امتیاز کوئی منفی تاثر پیدا نہیں کرے گا؟ یقینی طور پر کرے گا لیکن ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ ایسے حالات میں جبکہ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان میں الیکشن نہ ہوں اور صرف پنجاب میں الیکشن ہوں جہاں پاکستان کی 60 فیصد یا اب کم ہونے کے باوجود نصف سے بھی زیادہ نمائندگی موجود ہو تو ان انتخابات کے نتائج اس وقت کیا رنگ لا سکتے ہیں جب 6 ماہ بعد قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے؟ اور یہی بنیاد ہے اس خدشے کی جو بلاول بھٹو کی زبان سے نکلا ہے۔ یہی خدشہ حکومتی ردعمل کی بھی بڑی وجہ ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ رواں ہفتے کے دوسرے حصے سے شروع ہونے والے عدالتی عمل کے نتیجے میں حکومتی ردعمل ناقابل یقین حد تک سخت اور غیر متوقع ہو سکتا ہے اور اگر پارلیمان کی بھی نہیں سنی جا رہی تو شاید ایسا کچھ ہو جائے جس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔