ہفتہ کے روز وفاقی کابینہ نے کلیدی عہدوں پر اہم تقرریوں کے لئے 65 سال کی عمر کی حد کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جس کے بعد عدلیہ کے سینئر ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ تاہم، ان قیاس آرائیوں سے قانونی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ایسے اقدام کے عدلیہ اور قانون کی حکمرانی پر اچھے اثرات نہیں مرتب ہوں گے۔
بعض لوگ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے اقدام کو اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ حکومت یقینی بنانا چاہتی ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ہم خیال ججز کی مدت ملازمت ختم کروائی جا سکے اور انہیں اپنی باری پر چیف جسٹس کے طور پر ترقی حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ہم خیال ججوں کو مستقبل میں چیف جسٹس بننے سے روکا جائے جس کے لیے موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ اعلیٰ ترین ججز کو ریاست کے دیگر طاقتور اداروں کے ہاتھوں متاثر ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔
آئین کے آرٹیکل 176، 177 اور 179 جو سپریم کورٹ کی تشکیل، تقرری کے عمل اور ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین کرتے ہیں، ان کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججز 65 سال کی عمر تک ریٹائر ہو جائیں گے۔ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں جو چیف جسٹس، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز کو مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دیتی ہو۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بھی قانون سازی سپریم کورٹ کے بعض ججوں جیسے جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے مستقبل کا تعین کرے گی کہ آیا وہ چیف جسٹس بن سکیں گے یا اس سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ یہ آئینی ترامیم کے لیے موزوں وقت نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ مکمل طور پر عوام کی نمائندہ نہیں ہے اور تقسیم کا شکار ہے۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ کے پاس اس وقت قانون سازی کرنے کا آئینی، جمہوری اور اخلاقی اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی بھی مطلوبہ ترمیم کو سوشل میڈیا کی شدید جانچ پڑتال اور جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کے سامنے ایسی ترمیم کا دفاع نہیں کیا جا سکے گا'۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بہت سارے لوگ مشتعل ہوں گے اور اس اقدام کو طاقت دکھانے کے اقدام کے طور پر دیکھیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری تاریخ ایسی بری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 22 ستمبر 1977 کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے آئین میں غیر قانونی ترمیم کی۔ 'چیف جسٹس یعقوب علی خان کی جگہ شیخ انوار الحق کو چیف جسٹس بنایا گیا۔ ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے مارشل لاء کو قانونی جواز فراہم کیا اور ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دے دیا'۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ایک منتخب وزیر اعظم کا عدالتی قتل ہوا، ہماری نوزائیدہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا، پی سی او کے تحت اعلیٰ عدلیہ کی ملک گیر صفائی ہوئی اور بہت کچھ ہوا۔
'اس طرح کی آئینی سازشیں ماضی میں بھی تباہ کن ثابت ہوئیں؛ یہ اب ایک گہری تقسیم کے شکار ملک میں اور بھی بری ثابت ہوں گی'۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے بتایا کہ 2019 میں حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنا چاہتی تھی۔ اس وقت پاکستان بار کونسل نے اس طرح کی توسیع کی مخالفت کی تھی اور اس موضوع پر کنونشن منعقد کیے تھے۔ تاہم، آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور ججوں سمیت ہر کسی کو اس کے مثبت اور منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فوج سمیت مختلف اداروں کے سربراہان کو دی گئی توسیع کی مثال دیتے ہوئے ایڈووکیٹ امجد شاہ نے کہا کہ سینکڑوں لیفٹننٹ جنرل جو قطار میں کھڑے تھے آرمی چیف بنے بغیر ہی ریٹائرڈ ہو گئے (پاکستان ایئر فورس کے سربراہ کو حال ہی میں ایک سال کی توسیع ملی ہے)۔
انہوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اگر حکومت ججوں کو توسیع دینے کے لیے قانون سازی کرتی ہے تو سینئر ججز، جو بصورت دیگر چیف جسٹس بننے کے لیے قطار میں ہیں، بغیر ترقی ملے ریٹائر ہو سکتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دریں اثنا، سیاسی یا نظریاتی بنیادوں پر پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ وکلا نے چیف جسٹس کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کے خیال کی فوری طور پر مخالفت کی ہے۔ انہوں نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ چیف جسٹس کے بعض فیصلوں کو پی ٹی آئی کے خلاف متعصب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مقننہ کے ذریعہ کسی قانون سازی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے پاس قانونی جواز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل پی ٹی آئی کو اس کے انتخانی نشان 'بلے' سے محروم کر دیا۔ اس فیصلے کے انتخابات سے پہلے، دوران اور بعد میں بڑے اثرات مرتب ہوئے۔ مزید یہ کہ ان کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں سے چھین لی گئی تھیں کیونکہ وہ انتخابات کے لیے رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے طور پر منتخب نہیں ہوئے تھے۔
وکیل ابوذر سلمان نیازی نے سوال کیا کہ 'مخصوص نشستوں کے حوالے سے دائر کی گئی ایک پٹیشن کو سپریم کورٹ نے ابھی تک سماعت کے لیے کیوں نہیں مقرر کیا؟' انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن پی پی ٹی آئی کے خلاف درخواست دائر کرتا ہے تو اسے فوری طور پر مقرر کر دیا جاتا ہے۔
'چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے اگر کوئی آئینی ترمیم منظور کی جاتی ہے تو اس کا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے یا نہ ملنے سے براہ راست تعلق ہے؟' ابوذر سلمان نیازی نے سوشل میڈیا سائٹ 'ایکس' پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں پوچھا۔
پی ٹی آئی کے حامد خان کی سربراہی میں پروفیشنل گروپ کے وکلا کا ماننا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے 'سہولت یافتہ' قومی اسمبلی کی جانب سے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کوئی بھی قانون سازی براہ راست مفادات کا ٹکراؤ ہو گی۔
تاہم، آزاد گروپ کے وکلا جو اس وقت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل میں اہم عہدوں پر فائز ہیں، نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے کسی بھی معاملے پر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔
تاہم وکلا کے ایک طبقے کو خدشہ ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے کوئی قانون سازی ناصرف سپریم کورٹ کے ججوں کو مزید تقسیم کرے گی بلکہ اس سے سنیارٹی کی موجودہ ترتیب بھی متاثر ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی قانون سازی کی زبان ان ججوں کی قسمت کا تعین کرے گی جو چیف جسٹس بننے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
کیا یہ افواہیں کسی خاص مقصد سے اڑائی جا رہی ہیں؟
ایڈووکیٹ میاں داؤد کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید متنازعہ بنانے کے لیے توسیع کی افواہیں جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہیں تا کہ ان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
میاں داؤد نے وضاحت کی کہ 'چونکہ عدلیہ کے اندر احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جا رہا ہے اس لیے ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں تا کہ چیف جسٹس کو متنازعہ بنایا جا سکے'۔
انہوں نے کہا کہ اگر افواہیں حقیقت بن جائیں اور پارلیمنٹ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کر بھی دے تب بھی اس سے عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کی آزادی سے متعلق درست تاثر نہیں ابھرے گا۔
'یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ خود اس ترمیم کی تشریح کرے اور اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے برخلاف قرار دے دے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔
قانونی ماہر ایڈووکیٹ حافظ احسن احمد نے کہا کہ سابق آمر چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کر دی گئی تھی۔ اس ترمیم سے اس وقت اور اس کے بعد کے تمام ججز مستفید ہوئے ہیں۔
احسن احمد نے مزید کہا کہ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر کے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کسی اور آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ قانونی حلقے، دیگر سٹیک ہولڈرز یا ججز اس طرح کی ترمیم کا خیرمقدم کریں گے اور نا ہی اسے قبول کریں گے۔
حافظ احسن احمد نے مزید کہا کہ اگر آئینی ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی جاتی ہے تو پھر تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز یا ججز پر بھی یہی اصول لاگو کرنا ہو گا۔ یہ انتہائی مشکل کام ہو گا اور اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے جو مطلوب ہیں۔
سینئر سیاست دان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم کے بارے میں بہت زیادہ افواہیں چل رہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ تو اس سے چیف جسٹس کے دفتر کی بچی کھچی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس اس توسیع کے حق میں نہیں ہوں گے۔
**
سید صبیح الحسنین کی یہ رپورٹ The Friday Times میں شائع ہوئی جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔