سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں مقامی جمہوریت پر کام کرنے والے ادارے 'دہلیز' کے زیر اہتمام لوکل گورنمنٹ فورم کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت عوامی نمائندگی پر وقت وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ہونا لازم ہے، کسی جگہ بھی خالی جگہ نہیں چھوڑی جا سکتی۔
حاضرین کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ تاثر گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک کو ٹھیک کرنا ہے، ہم عدالتیں ملک کو ٹھیک کرنے نہیں نکلیں، ہمارے پاس مقدمہ آتا ہے ہم اس پر فیصلہ کرتے ہیں اور ہم ملک ٹھیک نہیں کر سکتے، ماضی میں قیتموں کا ٹرینڈ چلا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا، ہم ٹرینڈ سیٹ کرتے ہیں، فیصلے دیتے ہیں، قتل، ریپ کیسز کے بھی فیصلے دیتے ہیں تو کیا ایسے واقعات ختم ہو جاتے ہیں؟ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے فیصلے فوری طور پر سارے معاشرے کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی فیصلے ہیں جن پر عمل نہیں ہوتا، ہمارے نظام انصاف میں مسائل ہیں اگر سول کورٹ سے سپریم کورٹ تک کیسز کے ایک سال کے اندر فیصلے ہونے لگ جائیں تو شاید پاکستان کا ماحول ہی بدل جائے، مگر ریفارمز ایک الگ بحث ہے، ابھی بھی 20 لاکھ مقدمات ہیں جن پر فیصلے کرنا ہیں۔
عدالت حق پر فیصلے کرے اور عوام سپورٹ کرے، وہی عدالتوں کے جائز فیصلے ہوتے ہیں اسی سے عدالتوں کے فیصلوں کو تقویت ملتی ہے، ہمارے فیصلوں کا وہ معیار ہونا چاہئیے کہ کوئی ان پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے، ویسے بھی ہم اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے آئین میں لوکل گورنمنٹ کے اختیارات سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا پورا چیپٹر بنا دینا چاہئیے مگر یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے اور عدالت آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ عدالتوں کا لوکل گورنمنٹ کے ساتھ رابطہ ہونا ضروری ہے، پاکستان کے آدھے مسائل مصالحتی سسٹم سے حل ہو سکتے ہیں، مصالحتی کونسلز تو یونین سطح پر ہیں لیکن عدالتیں تحصیل سطح پر ہیں، اے ڈی آر کے تحت عدالتیں بھی انجمن مصالحتی کونسلز کو کیسز بھیج سکتی ہیں، عدالتوں کا ان انجمن مصالحتی کونسل کے ساتھ کوئی رابطہ ہونا چاہئیے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے خطاب میں کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا فلسفہ 1966 میں سراج الحق پٹواری کیس سے چلتا ہوا 1997 پھر معاملہ خواجہ احمد حسان تک پہنچا۔ خواجہ احمد حسان کو عہدے سے ہٹانے کا کیس آیا اور رولز پر عمل کرتے ہوئے صوبائی اتھارٹی نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نچلی سطح سے اختیارات کی منتقلی کو نظر انداز نہیں کر سکتے، 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 140 اے آیا، جس میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی بات کی گئی اور اسی کی بنیاد پر عمران ٹوانہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں آیا جس میں لاہور کا سگنل فری کوریڈور پروجیکٹ چیلنج ہوا تھا۔ ہائیکورٹ نے قرار دیا تھا کہ ایل ڈی اے لوکل گورنمنٹ کے اختیار میں مداخلت کر کے سگنل فری کوریڈور پروجیکٹ نہیں بنا سکتا لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل پر لاہور سگنل فری کوریڈور پروجیکٹ بنانے کی اجازت دے دی تھی۔
لوکل گورنمنٹ فورم تقریب میں سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کی بہتری کیلئے ہمیں ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم لانا ہو گا، سیکرٹری ایجوکیشن لاہور میں بیٹھ کر 36 اضلاع کے سکولوں کے ہزاروں ٹیچرز اور انتظامات پر نظر نہیں رکھ سکتا، مسائل کے حل کیلئے ڈسٹرکٹ سطح پر اختیارات دینا ہوں گے، اسی لئے ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم لوکل گورنمنٹ کیلئے لانا چاہئیے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کو این ایف سی اور پی ایف سی سے پیسہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ شہر اپنا پیسہ خود بنائیں۔ ہم یہاں پیراشوٹ فیصلے لے رہے ہیں اور ایسے بندے کو پیٹرولیم کی وزارت دے دیتے ہیں جس نے پہلے کبھی ریفائنری بھی نہ دیکھی ہو اور اس سے بہتر فیصلوں کی توقع کرتے ہیں۔
سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان فواد حسن فواد نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ہی اصل حکومت ہوتی ہے جو لوگوں کو اختیارات دیتی ہے، صوبائی اور وفاقی حکومت لوگوں کو اختیارات نہیں دیتی، مقامی حکومتوں میں لوگوں کو اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے فضول خرچی پاکستان کا کلچر بن چکا ہے، جس کی مثال یہ ہے کہ رواں سال حکومت نے اورنج لائن ٹرین کیلئے 65 ارب روپے سبسڈی دی اور دوسری جانب پنجاب کے سکولوں میں ایک لاکھ سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں اور پنجاب حکومت کہتی ہے کہ ان کے پاس رقم نہیں ہے، گذشتہ 2 صدیوں سے ایسی فضول خرچیوں کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی، کوئٹہ میں بیٹھا سیکرٹری اس کے دور دراز کے علاقے کے لوگوں کے مسائل حل نہیں کر سکتا، اگر ملک کا سسٹم درست کرنا ہے تو بیوروکریٹک سسٹم کو بہتر کرنا ہو گا۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر پنجاب اربن یونٹ ڈاکٹر عمر مسعود نے کہا کہ آج کے دور میں لوکل گورنمنٹ کا کردار گلیوں، نالیوں سے آگے آ چکا ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب اس بات سے آگے بڑھیں اور یہ سمجھیں لوکل گورنمنٹ سسٹم آپ کا حق ہے اور اگر یہ سسٹم نہیں ہے تو سمجھیں کہیں کوئی خلا موجود ہے، ہر حکومت اپنا لوکل گورنمنٹ قانون لائی اور پہلی حکومت کے قانون پر تنقید کرنے کے علاوہ اس میں کوئی بہتری نہیں کرتے۔
سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بھی بد قسمتی سے وفاق نے اپنی افرادی قوت اور چیزیں کم نہیں کیں اور صوبوں میں بھی کوئی مسابقتی نظام اور مقامی ٹیکس کا نظام نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہاں جب ہم الیکشن لڑنے کیلئے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ غیرملکی کرنسی کہاں پہنچ گئی یا 18 ویں ترمیم کا کیا بنا بلکہ لوگ کہتے ہیں ہمارے علاقے میں سیوریج سسٹم ٹھیک نہیں، گیس، پانی، بجلی دستیاب نہیں ہے، انہوں نے تجویز دی کہ این ایف سی ایوارڈ کے پیسے 20 فیصد صوبوں، 20 فیصد ڈویژن اور 60 فیصد ضلعوں کو دیے جانے چاہئیں۔ کراچی، لاہور سمیت دیگر بڑے اضلاع کو اپنی رقم سے ترقیاتی کام کروانے چاہئیں، الیکشنز باقی چیزوں کی نسبت سے بڑا آڈٹ ہوتا ہے لہٰذا لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کروائے جائیں۔
حقوق خلق پارٹی کے رہنما عمار علی جان نے کہا کہ جب آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں تو میرے خیال سے بے یقینی کی صورت حال گہرائی تک بڑھ چکی ہے، کیا ہم عوام کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ایک جہد مسلسل ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مزید برھنے والی ہے، پاکستان میں تمام انتخابات لوگوں کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ ان کی مرضی کو کنٹرول کرنے کیلئے ہوتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ملٹری رجیم میں دیکھا جائے تو اس وقت زیادہ فوکس تھا کہ لوکل گورنمنٹ تک اختیارات دیے جائیں، جب صوبوں میں حکومت ہوتی ہے تو لوکل گورنمنٹ موجود نہیں ہوتی اور جب لوکل گورنمنٹ ہوتی ہے تو صوبوں اور وفاق میں حکومت نہیں ہوتی، انہوں نے نشاندہی کی کہ لاہور کا 60 فیصد پانی گندا ہے، ایسا پانی وضو کے بھی قابل نہیں ہے اور اس مسئلہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
سابق وفاقی وزیر لوکل گورنمنٹ اویس لغاری نے کہا کہ سیاسی اور بیوکریٹک ایلیٹ کو اس سسٹم کو بہتر کرنا چاہئیے، پرویز مشرف کا بنایا گیا لوکل گورنمنٹ سسٹم پرویز الہیٰ نے تبدیل کیا، لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ مقامی حکومتوں کے بغیر کچھ بھی نہیں چل سکتا۔
تحریک انصاف کی سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کی بہتری کیلئے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنے دفتری اوقات میں زیادہ وقت دینے کی ضرورت ہے۔ ٹھیلے والوں، معمولی کام کرنے والوں کی ہمارے سسٹم میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ٹھیکیداروں نے پورے سسٹم کو معلق کر رکھا ہے، ان مسائل کو حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، آپ 21 صوبے بنا لیں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، مسائل وہیں رہیں گے، چیزیں تب بہتر ہوں گی جب آپ لوگوں کی سوچ تبدیل کریں گے۔
لمز یونیورسٹی میں منعقدہ لوکل گورنمنٹ فورم میں راجن سلطان پیرزادہ، ڈاکٹر سمین محسن، مشرف زیدی، ڈاکٹر علی چیمہ سمیت دیگر نے اظہار خیال کیا۔ تقریب میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔