سکولوں کے نام پر چلنے والی مرض گاہیں مفکر پیدا نہیں کر سکتیں

پیدائش سے لے کر عہد طفلیت کے اختتام تک کا عرصہ بچے کی کردارسازی و تربیت کے لیے کلیدی مقام رکھتا ہے۔ افسوس کہ والدین ان سالوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے پہلے والدین کی طرف سے لاپرواہی و غفلت کا ارتکاب کیا جاتا ہے، پھر سکول اس جرم میں شریک ہو جاتے ہیں۔

سکولوں کے نام پر چلنے والی مرض گاہیں مفکر پیدا نہیں کر سکتیں

اگر آپ کی ملکیت میں صرف تین مرلے زمین ہو تو آپ اس قلیل سی جگہ پر کیا تعمیر کر سکتے ہیں؟ آپ شاید بے ساختہ جواب دیں گے کہ میں تین مرلے پر چھوٹا سا گھر تعمیر کر سکتا ہوں یا پھر دکان بنا سکتا ہوں، چائے خانہ کھول سکتا ہوں یا پھر چھوٹی موٹی سی ورکشاپ بھی چلا سکتا ہوں۔ یہ سب جوابات دیتے ہوئے شاید آپ ایک بہترین کاروباری آپشن کو مس کر جائیں۔ آپ پاکستان میں رہتے ہوئے صرف تین مرلے پر ہائی سکول بھی کھول سکتے ہیں۔ آپ اوپر نیچے تنگ و تاریک، حبس زدہ اور جراثیم سے بھرپور بدبودار کمروں میں بچوں کو ٹھونس کر تدریس و تعلیم کے نام پر دھندہ بھی کر سکتے ہیں۔

جناب! شاپنگ مال، ہوٹل یا پھر سنیما گھر کھولنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، سکولنگ کا دھندہ شروع کرنے کے واسطے تو فقط تھوڑی سی جگہ اور کچھ پیسوں کا رجیسٹریشن پیپر درکار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ اگر آپ کی واقفیت اردگرد اچھی ہے تو اس پیپر کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جی! کیا کہا آپ نے؟ آپ ناخواندہ ہیں اور آپ نے آج تک کسی کتاب کو چھوا بھی نہیں ہے، یعنی آپ کتابوں کے معاملے میں کامل کنوارے ہیں۔ ارے میرے بھائی! آپ نے سکول کے نام پر دکان کھولنی ہے اور دکان کھولنے کے لیے صاحب تعلیم ہونا تو ضروری نہیں ہے۔ ہاں البتہ آپ کا چرب زبان ہونا ضروری ہے۔ آپ کچھ عرصہ ٹی وی پر رات 7 سے 9 بجے تک نیوز ٹاک شوز دیکھ کر چرب زبانی کی پریکٹس کر سکتے ہیں۔

جہاں تک سٹاف رکھنے کا معاملہ ہے تو جناب آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کیونکہ اس معاملے میں بھی آپ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اپنے ہنر میں شاندار پیشہ ور بھکاری، چور، جعل ساز، کرائے کے قاتل وغیرہ تو باآسانی مل جاتے ہیں لیکن پیشہ ور قابل، سچے استاد نہیں ملتے۔ یہاں مجبوری کا نام ٹیچر ہے۔ جس کے پاس کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ نہیں ہے یا جنہیں نوکری نہیں ملتی تو ایسے شدید قسم کے بے روزگار مجبوری کی حالت میں کسی نجی دکان یعنی سکول میں ٹیچر بھرتی ہو جاتے ہیں۔

میرے بھائی! جو پیشہ ور نہیں ہوتے یا جو بے روزگاری میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں مارکیٹ سے سستے داموں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو سکول سٹاف کی کمی کا سامنا نہیں ہو گا کیونکہ بے روز گار نوجوان آخرکار دھکے کھانے کے بعد نجی سکولوں میں ہی کھپ سکتا ہے۔ نجی سکولوں میں ایک مجبور بے روزگار نام نہاد استاد اپنے جیسے بے روزگار ہی تیار کرتا ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی یکلخت ٹیچر بن سکتا ہے۔ بہرحال آپ کو ٹیچرز کی بھرتی کے حوالے سے مطمئن ہو جانا چاہئیے۔

آپ اپنے ننھے منے تین مرلے کے سکول میں جن بچوں کے قیمتی ترین سالوں کا بیڑہ غرق کریں گے وہ بچے بڑے ہو کر تعلیمی اسناد ہاتھ میں تھامے کسی نجی سکول کے گیٹ پر کھڑے ہوں گے۔ یہ نحوست کا چکر یوں ہی جاری رہے گا۔ جس ملک میں پیشہ ور قابل استاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہاں سکول کے نام پر ناٹک گھر سجائے جاتے ہیں۔ ان ناٹک گھروں میں سرکاری و نجی دفاتر سے دھتکارا ہوا ایک بے روزگار شخص، کلاس روم میں کھڑا بڑے اناڑی پن کے ساتھ استاد کی اداکاری کرتا ہے اور اس کے سامنے موجود بچے سٹوڈنٹ کی اداکاری کرتے ہیں۔ ایسے ناٹک گھروں سے دانشور، ادیب، سائنس دان، مفکر و فلسفی برآمد نہیں ہوتے بلکہ تالیاں پیٹتے تماشائی نکلتے ہیں۔

فن لینڈ میں ڈاکٹر، وکیل وغیرہ بننا آسان ہے لیکن ٹیچر بننا اور ٹیچنگ کی نوکری حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس ملک میں سکول ٹیچر بننا تیسرا یا دوسرا آپشن نہیں ہوتا بلکہ ٹیچر صرف وہ بن سکتا ہے جو ٹیچر بننا چاہتا ہے۔ فن لینڈ قابل ترین سکول ٹیچر پیدا کرتا ہے۔ اس وجہ سے امریکہ اور برطانیہ وغیرہ سکولنگ اور ٹیچنگ کے میدان میں فن لینڈ کو اپنا استاد مانتے ہیں اور اس کے بہترین سکول سسٹم کو اپنے ملکوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض جہاں خالص استاد نہیں وہاں اصلی سکول بھی نہیں اور جہاں جینوئن درس گاہیں نہیں ہوتیں وہاں جا بجا مرض گاہیں پائی جاتی ہیں۔ ان مرض گاہوں میں بد تہذیب، بے ہنر، لاعلم اور بد اخلاق نسلیں تیار ہوتی ہیں۔

ہم نے بھی کیا غیر متعلقہ و بے سر و پا باتیں شروع کر دی ہیں۔ ہم اپنی توجہ پھر تین مرلے کے نجی سکول پر فوکس کرتے ہیں۔ عزیز من! آپ کے سکول کے لیے سٹاف کا مسئلہ تو حل ہو گیا۔ اب آپ کے ذہن میں یہ خدشہ کہیں انگڑائی لے رہا ہے کہ اگر بچوں کے والدین کو اس دو نمبری کا پتہ چل گیا کہ سکول کا پرنسپل ناخواندہ ہے اور دیگر سٹاف بھی نالائقی کا شاہکار ہے تو پھر کیا بنے گا؟ میرے بھائی آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ جناب! والدین تو بچوں کو سکرین، موبائل اور دیگر عجیب عجیب سی devices کے سپرد کر کے خود لمبی تان کے سوئے ہوئے ہیں۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا کمپنیاں بچوں کو والدین سے زیادہ جانتی ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو بچوں کے رجحانات، رویوں، دوستوں اور خفیہ کارروائیوں کے متعلق سب خبر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں نے والدین کی جگہ لے لی ہے اور والدین نے اس تبدیلی کو غیر محسوس طور پر قبول کر لیا ہے۔ تو جناب! والدین تو خود اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ذرا غور کرو تو معلوم ہو گا کہ گھر میں جیسے سب گم ہو گئے ہیں، جیسے تاریک غار میں سب ایک جگہ اکٹھے تو ہوں مگر ایک دوسرے کو دیکھنے سے قاصر ہوں۔ والدین بچوں کو گھر میں نہیں دیکھ رہے تو سکول کی اندرونی بدصورتیوں تک نظر کس طرح پہنچ سکتی ہے۔

والدین کی نظر و بصیرت قائم ہوتی اور مغز بیدار ہوتا تو یہ تعلیمی ناٹک گھر و مرض گاہیں نہ موجود ہوتے۔ تعلیم کے نام پر دھندہ نہ ہوتا۔ نجی سکول والوں نے اپنے مشترکہ مفادات کے لیے ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے۔ والدین جو اپنے جگر گوشے ان سکولوں میں ڈالتے ہیں، والدین جو اپنے بچوں کے قیمتی ترین سالوں کو سکولوں میں کھپاتے ہیں، کیا ان والدین نے اپنے بچوں کے مشترکہ تعلیمی مفادات کے لیے کوئی تنظیم یا کوئی پریشر گروپ بنایا؟ محلے، شہر یا ضلع کے لیول پر والدین نے بچوں کے سب سے اہم وقت کو ڈسٹ بن کی خوراک بننے سے روکنے کے لیے کوئی ایسوسی ایشن بنائی؟ مطلب یہ نہیں ہے کہ والدین ڈنڈے سوٹے اٹھا کر نجی سکولوں کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں۔ جائز مؤقف سامنے لانے کے لیے جائز طریقہ اپنانا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔

نجی سکولوں پر حکومت کی گرفت بھی انتہائی ڈھیلی ہے اور دوسری طرف والدین بچے کی اچھی ہینڈ رائٹنگ، انگلش بول چال اور ٹیسٹوں میں اچھے نمبروں پر خوش ہو جاتے ہیں۔ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، مثبت کردار سازی، بنیادی اخلاقی و تہذیبی اقدار کو راسخ کرنا والدین کی ترجیہات میں شامل نہیں ہے۔ والدین اور تعلیمی نظام دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ والدین بچوں کی تربیت کے سلسلے میں دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو نصیحت تو کرتے ہیں لیکن وہ خود گھر میں اچھی باتوں کا عملی نمونہ نہیں بنتے۔ نجی سکول والوں کی طرح وہ بھی گھر میں ایک ناٹک سجا کر رکھتے ہیں۔ اب بتاؤ بھائی! ایک ناٹک کار دوسرے کی ناٹک کاری پر کس طرح اعتراض کر سکتا ہے؟

والدین کی parenting میں ٹیڑھا پن ہے اور یہ ٹیڑھا پن پورے سماج میں نظر آتا ہے۔ پیدائش سے لے کر عہد طفلیت کے اختتام تک کا عرصہ بچے کی کردارسازی و تربیت کے لیے کلیدی مقام رکھتا ہے۔ افسوس کہ والدین ان سالوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے پہلے والدین کی طرف سے لاپرواہی و غفلت کا ارتکاب کیا جاتا ہے، پھر سکول اس جرم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس جگہ صرف ان والدین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت سے غافل ہیں۔ سیریل کلرز اور دیگر خطرناک ترین مجرموں پر ہونے والی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ malparenting کے نتیجے میں معاشرے کو سفاک ترین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شدید ترین نفسیاتی بیماریوں کی جڑیں بجپن میں پیوست ہوتی ہیں۔

پرورش کرنا محض تین وقت کا کھانا، کپڑے اور دوا مہیا کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ سب سہولتیں تو ایک قیدی کو جیل میں بھی مل جاتی ہیں۔ اسی طرح سکولنگ بچے کو چند گھنٹوں کے لیے گھر سے غائب کر دینے کا نام نہیں ہے۔ پرورش کی اصل روح اور تدریسی عمل کا اصل مقصد ہماری بحثوں کا موضوع ہی نہیں بنتا۔ ہماری ترجیحات ہیں اچھے گریڈ، دلکش خطاطی اور بس۔

اس تقریر کا نچوڑ یہ ہے کہ آپ والدین کی طرف سے بے فکر ہو جائیں، وہ آپ کے تین مرلے کے سکول کو سکول ہی سمجھیں گے جس طرح malparenting کو اچھی پرورش سمجھتے ہیں۔ آپ کو ریاست کی جانب سے بھی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ریاست خواہ مخواہ ایسے بے تکے اور فضول بکھیڑوں میں نہیں پڑتی۔ آپ بس دهنده شروع کریں۔