پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا منافع بخش صنعت

پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا منافع بخش صنعت
پاکستان میں سرکاری نظام تعلیم کے ساتھ پرائیویٹ نظام تعلیم بھی رائج ہے اور یہ نظامِ تعلیم سکول کی ابتدائی تعلیم سے ہی رائج ہے جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-اے اور ملینیم ڈویلپمنٹ گول 4 کے تحت 12 سال کی ابتدائی تعلیم تمام شہریوں کو بلاتفریق دینا حکومت پاکستان کی آئینی و ریاستی ذمہ داری ہے لیکن یہ آئینی و ریاستی ذمہ داری آج تک درست طریقے سے پوری نہیں کی جا رہی ہے۔ اور نہ ہی ملینیئم ڈویلپمنٹ گول کے تحت نظامِ تعلیم پر بجٹ کا 4 فیصد مختص کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سرکاری نظام تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ اور عام شہری بچوں کو اچھے مستقبل و بہتر تعلیم کے لیے پرائیویٹ اداروں سے تعلیم دلانے پر مجبور ہیں جبکہ پرائیویٹ اداروں سے تعلیم دلانے اور اپنے بچوں کو اپنی بساط سے بڑھ کر اچھے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانا والدین کے لئے مجبوری کے ساتھ پیسہ رکھنے والے افراد کے لیے معاشرتی رتبہ کا باعث بھی تصور کیا جاتا ہے۔

اسی بناء پر پرائیویٹ تعلیمی ادارے بچوں کو اور ان کے والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کئی طرح کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں اور ہر ایک نئے انداز سے تعلیم دینے اور دیگر ترغیبات دے کر بچوں کے والدین کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں۔

محکمہ تعلیم سے رجسٹرڈ اداروں میں سے بیشتر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اپنے مہنگی فیسوں والے تعلیمی اداروں کے ساتھ پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز بھی بنا رکھے ہیں جہاں پر شام کے اوقات میں ٹیوشن کے نام پر تعلیم دے کر الگ سے والدین سے بھاری رقوم لی جا رہی ہیں۔

 دریں اثناء یہ ٹیوشن سنٹرز قائم کرنے کے لئے کسی اجازت نامے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے اور اس کو حکومت کی جانب سے صرف ایک کاروبار کی طرح ریگولیٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے لئے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں جبکہ خلاف ورزی پر والدین بچوں کی پڑھائی کے باعث کوئی شکایت بھی نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ٹیوشن سنٹرز مادر پدر آزاد چلے آ رہے ہیں۔

اسی وجہ سے تعلیمی ادارے صرف ایک صنعت بن کر رہ گئے ہیں جہاں بچوں کو مشینی انداز میں میں رٹے کی طرح تعلیم دے کر ان کو مشین بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سماجی تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 62 فیصد والدین اپنے بچوں کو مہنگی پرائیویٹ تعلیم دلانے کے ساتھ ٹیوشن بھی پڑھا رہے ہیں اور ٹیوشن کلچر اس قدر جڑیں پکڑ چکا ہے کہ والدین آٹھویں کلاس سے اپنے بچوں کو لازمی طور پر ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور ٹیوشن پڑھانے کا یہ سلسلہ نویں اور دسویں جماعت میں بہت زیادہ زور پکڑ گیا ہے اور یہ سلسلہ ایف ایس سی تک جاری رہتا ہے جس میں بچوں کو مختلف اکیڈمیوں میں پڑھانے کے ساتھ ان کو ٹیسٹ دلوانے اور امتحانی تیاری کے ساتھ انٹری ٹیسٹ دلانے کے لیے بھی تیاری کرائی جاتی ہے اور اس تیاری کے لیے والدین بچوں کو دور دراز بڑے شہروں میں بھیج کر اضافی اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں جبکہ والدین کی مجبوریوں کی بناء پر یہ ٹیوشن سینٹرز دن بدن وسیع سے وسیع تر ہونے کے ساتھ ان اداروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ صرف منافع والی صنعت بن چکی ہے جس میں کسی نقصان کا اندیشہ بھی موجود نہیں ہے۔

ٹیوشن پڑھانے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی دن کے اوقات میں بچوں کو عمومی طور پر پڑھایا جاتا ہے اور ان پر اس سطح پر توجہ نہیں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے والدین اور بچے ٹیوشن پڑھنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کی زیادہ تعداد کی جانب سے اچھے نمبر لینے کے باعث یہ تاثر معاشرے میں زور پکڑتا جا رہا ہے کہ تعلیمی میدان میں کامیابی کے لئے ٹیوشن پڑھنا بہت زیادہ ضروری ہے جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے متوازی ٹیوشن سنٹرز بنا کر اپنی کمائی زیادہ سے زیادہ کر رہے ہیں جبکہ ان تعلیمی اداروں کو دوسرے کاروباروں کے مقابلے میں مختلف ٹیکسوں کی شرح میں چھوٹ بھی حاصل ہے۔

ملکی سطح کی سماجی تنظیم کے کئے گئے سروے کے مطابق سیکنڈری سطح کے سرکاری اداروں کی تعداد 40.6 فیصد جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ اداروں کی تعداد 59.4 فیصد ہے اسی طرح بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے لئے والدین عمومی طور پر پرائیوٹ سکول فیس کے علاوہ پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک 300 روپے سے 1500 روپے فی بچہ، نویں اور دسویں جماعت میں 5 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے جبکہ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں 5 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک فی بچہ ٹیوشن پر خرچ کیا جاتا ہے۔

پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنے والے طالبعلوں کا تقابل کیا جائے تو اعداد و شمار کے مطابق پہلی جماعت میں سرکاری سکولوں کے 3.1 فیصد بچوں کے مقابلے میں پرائیوٹ سکول کے 19.9 فیصد بچے ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ اسی طرح دوسری جماعت میں سرکاری سکولوں کے 5.1 فیصد کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 24.7 فیصد، تیسری کلاس کے 5.2 فیصد سرکاری سکولوں کے بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 25.1 فیصد، چوتھی جماعت کے سرکاری سکولوں کے 6.7 فیصد بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 25.3 فیصد، چھٹی جماعت کے 8.0 فیصد سرکاری سکولوں کے بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 28.3 فیصد، چھٹی جماعت کے سرکاری سکولوں کے 9.9 فیصد بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 24.6 فیصد، ساتویں جماعت کے 10.1 فیصد سرکاری سکولوں کے بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 25.9 فیصد، آٹھویں جماعت کے سرکاری سکولوں کے 12.4 فیصد بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 45.6 فیصد، نویں جماعت کے سرکاری سکولوں کے 49.7 فیصد بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 85.7 فیصد اور دسویں جماعت کے 50.70 فیصد سرکاری سکولوں کے بچوں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں کے 90.4 فیصد بچے پرائیویٹ ٹیوشن پڑھتے ہیں۔

اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق والدین سماجی اور معاشرتی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سنٹرز کی طرف راغب کر رہے ہیں جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں جیسا ماحول اور معیار کہیں دستیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم رائج قوانین کی روشنی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ان کے ٹیوشن سنٹرز پر دستیاب سہولیات اور فیسوں کے معیار کی حد تک کارروائی کر سکتا ہے جس میں شکایات آنے پر فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور زائد فیسیں لینے یا تعطیلات میں اکٹھی فیسیں وصول کرنے پر گزشتہ کچھ عرصہ میں مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھاری جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے جبکہ آج کے دور میں والدین کے ان پڑھ ہونے یا پڑھے لکھے ہونے کی صورت میں وقت نہیں ہونے کے باعث ہوم ورک اور اضافی توجہ کے ساتھ شام کے اوقات میں بری سوسائٹی سے بچانے کے لئے ٹیوشن سنٹرز میں داخل کرایا جاتا ہے، جہاں بچوں کو اضافی وقت میں بہتر تعلیم دی جاتی ہے اور اس کا انتخاب والدین کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے اور پرائیویٹ اداروں کی جانب سے بچوں یا ان کے والدین پر زبردستی نہیں کی جاتی ہے۔

والدین محمد عامر، حامد خان، پرویز الطاف اور نوشین ریاض نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ ٹیوشن بھی پڑھ رہے ہیں جبکہ آج کے مہنگائی کے دور میں تنخواہ میں سے ہزاروں روپے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں اور یہ رقم خرچ کرنے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو دیگر سہولیات میں اچھا کھانا، تفریح، کپڑے اور دیگر اشیاء فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کا انہیں ہر وقت رنج رہتا ہے۔