Get Alerts

'العزیزیہ ریفرنس، پنجاب حکومت کے اقدام کے بعد  کوئی جج بھی نواز شریف کو جیل نہیں بھیج سکتا'

مزمل سہروردی نے کہا کہ نواز شریف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اگر عدلیہ ان کے ساتھ کوئی ہاتھ کرتی بھی تو بھی ان کے پاس 'پلان بی' موجود تھا جس کے تحت پنجاب حکومت نے ان کی سزا معطل کر دی ہے۔ نواز شریف جیل جانے کے لیے نہیں وزیراعظم بننے کے لیے پاکستان واپس آئے ہیں۔ جو لوگ ان کو جیل بھیجنا چاہتے تھے ان کو بڑا واضح جواب مل گیا ہے۔

'العزیزیہ ریفرنس، پنجاب حکومت کے اقدام کے بعد  کوئی جج بھی نواز شریف کو جیل نہیں بھیج سکتا'

پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا معطل کردی جس کے بعد عدلیہ کسی صورت ان کو جیل نہیں بھیج سکتی اور اب کوئی چانس نہیں کہ نواز شریف کو قید کا سامنا کرنا پڑے۔

نیا دور ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ پنجاب کی عبوری حکومت کی جانب سے سزا کی معطلی کے بعد نواز شریف اب عدلیہ پر منحصر نہیں رہے ۔ وہ نیب ریفرنس کی واپسی کی بجائے عدالت سے بری ہونے کو ترجیح دیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپیلیں منظور ہو جائیں اور اس کے بعد ان کی سزا مکمل طور پر ختم ہو جائے۔کیونکہ ریفرنس واپسی کی صورت میں دوبارہ دائر ہو سکتا ہے جبکہ بری ہونے کی صورت میں وہ ریفرنس دوبارہ دائر نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا اپیلوں کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔

تجزیہ کار مزمل سہروردی نے بتایا کہ پی ٹی آئی اور دیگر لوگ جو کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کو ایک بار تو جیل جانا ہی پڑے گا تو ان پر واضح ہو گیا ہو گا کہ حکومتی اقدام نے وہ ایک بار والا راستہ بھی بند کر دیا۔ صرف عدالت تک ہی بات رہتی تو شاید انہیں ایک دو روز کے لیے جیل جانا بھی پڑ جاتا لیکن جو پنجاب حکومت نے ماسٹر سٹروک کھیلا ہے اس کے بعد اب کوئی جج بھی نواز شریف کو جیل نہیں بھیج سکتا۔ جج صاحب اپیلیں بحال کریں یا نہ کریں انہیں یہ تو پتا ہے کہ ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔ اب نیب کی جانب سے بھی موقف آجائے گا کہ ہمیں نواز شریف کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہے۔ نیب کے لیے جو بھی قانونی طور پر ممکن ہوا وہ کر لے گی۔ تاہم نواز شریف کوئی غیرقانونی کام نہیں کریں گے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ریلیف حاصل کریں گے۔

مزمل سہروردی نے کہا کہ نواز شریف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اگر عدلیہ ان کے ساتھ کوئی ہاتھ کرتی بھی تو بھی ان کے پاس 'پلان بی' موجود تھا جس کے تحت پنجاب حکومت نے ان کی سزا معطل کر دی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ نواز شریف جیل جانے کے لیے نہیں وزیراعظم بننے کے لیے پاکستان واپس آئے ہیں۔ جو لوگ ان کو جیل بھیجنا چاہتے تھے ان کو بڑا واضح جواب مل گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں تجزیہ کار نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت میں پنجاب کابینہ کو سزا معطلی کی درخواست کیوں دیتے؟ عمران خان نے تو نواز شریف کی درخواست کو جلسوں میں لہرانا تھا کہ نواز شریف درخواستیں کر رہا کہ سزا معطل کر دیں۔ اب نگران حکومت ہے، نیوٹرل حکومت ہے۔ اب انہیں ضرورت تھی تو انہوں نے سزا معطلی کے لیے استدعا کر دی۔ 2019 میں عثمان بزدار کی کابینہ نے طبی بنیادوں پر ان کی سزا معطل کی تھی۔

فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ حکومت اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرے گی اور یہ اپیل کافی لمبی چلے گی۔ فوج 9 مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اس دوران ملک میں انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ نئی پارلیمنٹ آجائے گی جو آئین میں ایسی قانون سازی اور ترمیم کرے گی کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہو۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کر دی۔ 

نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پنجاب حکومت کو دی گئی تھی۔

نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی۔ نگران وزیر اطلاعات عامر  میر  نے نواز شریف کی سزا معطلی کی تصدیق کی۔

عامر میرکے مطابق نگران کابینہ نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سزا معطل کی. کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی گئی ہے۔

ویڈیو لنک پر نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے سزا معطلی پر بھرپور دلائل دیے۔

دوران سماعت نگران پنجاب کابینہ کے ہمراہ چیف سیکریٹری پنجاب بھی موجود تھے۔ نگران پنجاب حکومت نے سابق نواز شریف کے وکلا کی سزا معطلی کے لیے درخواست متفقہ طور پر منظور کی۔

واضح رہے کہ کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت حکومت کسی بھی مجرم کی سزامعاف کرنےکا اختیار  رکھتی ہے۔ نواز شریف کی 2019 میں لندن روانگی سے قبل بھی سیکشن 401 کے تحت سزا معطل کی گئی تھی۔

احتساب عدالت نے 6جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 19ستمبر 2018 کو میرٹ پر سزائیں معطل کرکے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو رہا کر دیا تھا۔

نواز شریف کو 24دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے 31اکتوبر 2019 کو میڈیکل گروانڈ پر نواز شریف کی ضمانت دی تھی۔