ایک وقت تھا جب ملک کے دو بڑوں میں اقتدار کی جنگ جاری تھی لیکن پھر اقتدار کی یہ کہانی بہت پیچھے رہ گئی اور گیم بدل گئی۔ کس پر کیا گزری اور کون کیا گزار رہا ہے، یہ داستان بھی انوکھی ہے لیکن پہلے میں سنانا چاہتی ہوں ایک ایسے بڑے کی کہانی جو تین بار تخت نشین رہا اور تینوں بار مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔
آخری بار تختہ الٹایا گیا تو مہرا کوئی اور بنا۔ یہ مہرا سیڑھیاں چڑھنے کے چکر میں بھول گیا کہ کل کو یہ وقت اس پر بھی آ سکتا ہے۔ وہ یہ بھی ذہن میں نہ رکھ سکا کہ آج اگر احتساب یا حساب میں گنتی زیادہ ہے تو کل اس کے حساب میں بھی پلس ہو سکتی ہے۔ جیل اگر ایک کا مقدر ہے تو کل کو دوسرے کا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک اگر 'مجھے کیوں نکالا؟' کا نعرہ لگاتا ہے تو کل کو 'میرے خلاف سازش ہوئی' کا نعرہ بھی لگے گا۔ آج مجھے کندھے پر اٹھایا جا رہا ہے تو کل گرایا بھی جا سکتا ہے۔
تین بار کے وزیر اعظم کو ملک چھورنا پڑا، یعنی وہ احتساب کی عدالت کو برداشت نہ کر سکا۔ دوسرا ملک کے اقتدار پر بیٹھ گیا اور تمام احتساب بھول گیا۔ وہ بھول گیا کہ اس نے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ بھول گیا کہ اس نے این آر او دینے سے منع کیا تھا۔ وقت کی رفتار دیکھیے، ساڑھے تین سال گزرے اور وہی کندھا جو اسے اپنا لگتا تھا اب ٖغیر لگنے لگا۔ کیونکہ وقت پلٹا کھا چکا تھا۔ اب نہ تو کوئی کندھا تھا اور نہ وہ کندھا لینا چاہتا تھا۔ اس کے سر پر اپنے خلاف سازش کا بھوت سوار تھا اور اسی جنون میں تمام مواقع اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔
دوسرا امیدوار شاید ایسے ہی کسی وقت کی تلاش میں تھا۔ وہ بھاری دل کے ساتھ ملک سے باہر تو گیا لیکن آج جب اس کا سیاسی دشمن جیل میں ہے تو لوٹ آیا ہے اور اسے بدلہ لینے کی کوئی تمنا نہیں۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنہوں نے پاناما کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل کروایا، وہ گالیاں، بے عزتی اور نفرت بھی جو لندن میں اس کا مقدر بنی، وہ سب بھول جائے۔
ایک چیز شاید اسے نہیں بھولنی چاہئیے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ یہ تین مرتبہ کا وزیر اعظم جس شان و شوکت سے واپس آیا ہے بالکل ہیرو بن سکتا ہے اگر واقعی بدلہ چھوڑ کر عوام کے بارے میں سوچے۔ وہ زیادتی جو اس کے ساتھ ہوئی، وہ کسی اور کے ساتھ ہونے سے بچائے کیونکہ کچھ کندھے بہت بے وفا ہوتے ہیں، یہ کسی وقت بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔